پی ٹی آئی کے لاہور جلسے کے دوران لاہور ہائیکورٹ کے جج جسٹس انوار حسین کی سرکاری گاڑی کو رنگ روڈ پر روکنے کے معاملے پر 3 پولیس افسران کو معطل کر دیا گیا ہے۔ ان پولیس افسران کے خلاف انکوائری کس کے کہنے پر ہوئی؟ رجسٹرار آفس نے اس ضمن میں کیا کردار ادا کیا؟ اور معطل ہونے والے پولیس افسران اس ضمن میں کیا کہتے ہیں؟ 'نیا دور' نے عدالتی ذرائع اور معطل ہونے والے ایس ایچ او مسلم ٹاؤن ندیم کمبوہ سے گفتگو کر کے اصل کہانی ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے 21 ستمبر کو لاہور کے علاقہ کاہنہ میں جلسہ کیا گیا جس کے دوران لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس انوار حسین کی سرکاری گاڑی کو رنگ روڈ پر پولیس اہلکاروں کی جانب سے روکا گیا۔ سرکاری گاڑی میں جسٹس انوار حسین کے دو بیٹے سوار تھے جن کی شکایت پر جسٹس انوار حسین نے معاملہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس عالیہ نیلم کے سامنے رکھا اور انکوائری کے بعد تین پولیس افسران کو معطل کر دیا گیا۔ ان میں ایس پی سکیورٹی خالد محمود افضل، ڈی ایس پی انویسٹی گیشن کاہنہ راجہ فخر بشیر اور ایس ایچ او مسلم ٹاؤن ندیم کمبوہ شامل ہیں۔
اس ضمن میں ایس ایچ او تھانہ مسلم ٹاؤن ندیم کمبوہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے گاڑی کو محض آگے جانے سے روکا تھا کیونکہ سڑک پر کنٹینر رکھے گئے تھے جبکہ معزز جج صاحب کے بیٹے اصرار کر رہے تھے کہ کنٹینر ہٹوا کر ان کی گاڑی کو گزارا جائے۔ ندیم کمبوہ کے بقول پولیس کی جانب سے گاڑی میں سوار لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس صاحب کے بیٹوں کے ساتھ بدتمیزی کی گئی اور نا ہی گاڑی کو ٹھڈے مارے گئے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب انکوائری ہو گی تو سچ سامنے آ جائے گا۔
اس معاملے پر عدالتی ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ جسٹس انوار حسین کے بیٹے ہائیکورٹ کی سرکاری گاڑی میں ڈرائیور کے کے ساتھ 21 ستمبر کو شام 5 بج کر 40 منٹ پر پنجاب سوسائٹی سے گرین ایکڑ رائیونڈ روڈ پر زیر تعمیر اپنے گھر کی طرف سفر کر رہے تھے جس کے لئے انہوں نے کماہاں انٹرچینج سے لاہور رنگ روڈ کا راستہ اختیار کیا تھا۔ جلسے کی وجہ سے پولیس نے کماہاں کے داخلی راستے پر کوئی ناکہ نہیں لگا رکھا تھا۔ عدالتی ذرائع کا کہنا ہے کہ فاضل جج کی گاڑی جب لاہور رنگ روڈ پر پی ٹی آئی کے جلسے والی جگہ سے کچھ فاصلے پر پہنچی تو پولیس کے ناکے کی وجہ سے ہائیکورٹ کی سرکاری گاڑی کے علاوہ دیگر گاڑیاں بھی روکی گئی تھیں۔
عدالتی ذرائع کے مطابق موقع پر موجود پولیس اہلکاروں کو فاضل جج کے بیٹے نے اپنے والد کا نام اور براستہ رنگ روڈ اپنے زیر تعمیر گھر واقع رائیونڈ روڈ جانے کیلئے رنگ روڈ پر سفر کرنے کا مقصد بتایا تو پولیس افسر نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 'پیچھے ایس پی صاحب کھڑے ہیں، کوئی جج شج ہو یا کوئی بھی ہو اس راستے سے کوئی نہیں گزر سکتا'۔ اس پر فاضل جج کے ایک بیٹے نے اپنے والد سے رابطہ کرنے کیلئے موبائل فون ہاتھ میں لیا تو موقع پر موجود پولیس افسر نے اس کا موبائل چھین لیا جس پر گاڑی میں موجود ان کے دوسرے بیٹے نے جسٹس انوار حسین کو پولیس کے رویے کی اطلاع دی۔ عدالتی ذرائع بتاتے ہیں کہ موقع پر موجود ایس ایچ او کے ساتھ حاضر ڈیوٹی اے ایس آئی اپنے افسر سے یہ بھی کہتے رہے کہ جناب سرکاری گاڑی ہے اور بچے بھی چھوٹے ہیں، جانے دیں مگر ایس ایچ او مسلم ٹاؤن نے گاڑی میں بیٹھے 9 سال کے بچے کو گریبان سے پکڑ کر باہر نکالا اور گاڑی کو ٹھڈے بھی مارے۔
تاہم معطل ہونے والے ایس ایچ او تھانہ مسلم ٹاؤن ندیم کمبوہ نے 'نیا دور' سے گفتگو کے دوران بتایا کہ 21 ستمبر کو سفید رنگ کی گاڑی میں 2 نوجوان سوار تھے، رنگ روڈ پر کنٹینرز کی وجہ سے گاڑیوں کو واپس بھیجا جا رہا تھا مگر نوجوان نے اصرار کیا کہ کنٹینر کو ہٹا کر ان کی گاڑی کو گزارا جائے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ وہ تو یہ جانتے تک نہیں تھے کہ وہ نوجوان کسی جج کے بیٹے ہیں اور نوجوان کو گریبان سے پکڑنے اور گاڑی پر ٹھڈے مارنے کا الزام بھی بے بنیاد ہے۔
ایس ایچ او ندیم کمبوہ کا مزید کہنا تھا کہ حالات و واقعات جھوٹ نہیں بولتے، اگر گاڑی پر ٹھڈے مارے گئے تو اس پر نشانات بھی موجود ہوں گے، اگر ایسا ہوا ہے تو اس کی ویڈیو سامنے لائی جائے۔ انہوں نے کہا کہ جج کے بیٹے کو یہ کہنا کہ 'یہاں سے واپس چلے جاؤ اور ہمارا دماغ خراب مت کرو' اگر سخت الفاظ ہیں تو بتا دیں، جب انکوائری ہو گی تو تمام سچ سامنے آ جائے گا مگر یہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قانون چلتا ہے۔
ہائیکورٹ کے ذرائع کے مطابق جسٹس انوار حسین نے تمام واقعہ کی اطلاع بذریعہ فون کال چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس عالیہ نیلم کو دی جس پر انہوں نے معاملے پر خود کارروائی کرنے کے لئے رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ کو ہدایات دیں۔
عدالتی ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ معاملہ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے علم میں آنے کے بعد ڈی آئی جی آپریشنز لاہور جسٹس انوار حسین سے معافی کیلئے پہنچ گئے جس پر فاضل جج نے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کو بذریعہ مسیج آگاہ کیا کہ وہ کسی سے معافی نہیں منگوانا چاہتے، یہ دیکھا جائے کہ کیا آفیشل گاڑی میں موجود ایک جج کی فیملی محفوظ ہے یا نہیں؟ اس کے علاوہ محکمہ پولیس کی عمومی انکوائری کر لی جائے اور حقائق کی جانچ کر لی جائے۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کی ہدایت پر آئی جی پنجاب نے واقعے کی انکوائری کرنے کا حکم دیا جو ڈی آئی جی سطح کے پولیس افسر نے کی اور انکوائری مکمل ہونے کے بعد 3 پولیس افسران کو معطل کر دیا گیا۔ ترجمان پنجاب پولیس کا کہنا ہے کہ انکوائری میں معلوم ہوا کہ پولیس افسران نے شہری کے ساتھ بدتمیزی کی تھی۔