چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ اسلام آباد کے بلیو ایریا میں واقع ایک بیکری کے ملازم نے بدتمیزی کی اور ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر ڈال دی جو گذشتہ روز سے پاکستان کے سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے۔ تاہم بیکری انتظامیہ نے کہا ہے کہ یہ واقعہ رواں سال اگست کے اوائل کا ہے۔
سوشل میڈیا پر کہا جا رہا ہے کہ انتظامیہ نے بیکری کی اس برانچ کو سیل کر دیا ہے اور ملازم کو نوکری سے نکال دیا گیا ہے جبکہ یہ دونوں دعوے درست نہیں ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ اگست کے پہلے ہفتے میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنی فیملی کے ہمراہ اسلام آباد کے بلیو ایریا میں واقع بیکری کرسٹیز ڈونٹس میں خریداری کے لیے گئے۔ جب انہوں نے اپنی مطلوبہ چیزوں کا آرڈر دیا تو کاؤنٹر پر کھڑے بیکری ملازم نے ویڈیو بناتے ہوئے سوال کیا کہ کیا آپ فائز عیسیٰ ہیں؟ اس سوال پر کاؤنٹر کے سامنے کھڑی چیف جسٹس کی بیٹی نے چیف جسٹس کو اس سوال کے متعلق بتایا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس سوال کا ان کی خریداری سے کیا تعلق ہے، تاہم انہوں نے جواب دیا کہ ہاں وہ قاضی فائز عیسیٰ ہیں۔ جس کے بعد ویڈیو بنانے والے بیکری ملازم نے بدتہذیبی پر مبنی کلمات ادا کیے۔
سوشل میڈیا پر یہ واقعہ گذشتہ شب سے وائرل ہو رہا ہے اور تاثر دیا جا رہا ہے جیسے یہ تازہ واقعہ ہے۔ سوشل میڈیا پر جہاں کچھ لوگ بیکری ملازم کی تعریفیں کر رہے ہیں وہیں کئی لوگ اس کے رویے کی مذمت بھی کر رہے ہیں۔ لوگ اس بیکری سے چیزیں خریدنے کے بعد اپنی تصویریں سوشل میڈیا پر لگا رہے ہیں اور یہ تاثر دے رہے ہیں کہ وہ بیکری ملازم کے رویے سے خوش ہیں اور بیکری کے ساتھ کھڑے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایسی تصویریں بھی لگائی جا رہی ہیں جن میں مذکورہ بیکری کے باہر لوگوں کی لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں۔
سوشل میڈیا پر یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس واقعے کے بعد بیکری ملازم کو نوکری سے نکال دیا گیا ہے اور برانچ کو سیل کر دیا گیا ہے۔ تاہم کرسٹیز ڈونٹس نے اس حوالے سے سوشل میڈیا پر وضاحتی بیان جاری کیا ہے جس میں بیکری ملازم کے فعل کو ذاتی فعل قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بیکری کی ایسی کوئی پالیسی نہیں کہ وہ کسی بنیاد پر اپنے گاہکوں کے ساتھ امتیازی رویہ رکھنے کی روادار ہے۔ اس کے علاوہ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بیکری اگرچہ مذکورہ ملازم کے رویے کی مذمت کرتی ہے مگر اس نے ملازم کو نوکری سے نہیں نکالا بلکہ مذکورہ ملازم اس واقعے کے بعد خود ہی کام پر نہیں آیا۔
بیکری نے یہ بھی وضاحت کی ہے کہ بیکری کی کسی برانچ کو انتظامیہ نے سیل نہیں کیا بلکہ سوشل میڈیا پر بیکری کی جس برانچ کے سیل ہونے کی تصویریں لگائی جا رہی ہیں وہ اس واقعے سے پہلے کی ہیں اور ان تصویروں کا اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں۔
بیکری کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ یہ واقعہ حالیہ دنوں کا نہیں ہے بلکہ اگست کے اوائل کا ہے جبکہ بیکری کی برانچ کو مقامی انتظامیہ نے جولائی میں سیل کیا تھا جس کی تصویریں سوشل میڈیا پر لگا کر یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ مذکورہ واقعے کے بعد بیکری کو سیل کر دیا گیا ہے۔ کمپنی کا کہنا تھا کہ بیکری کی کسی بھی برانچ کو انتظامیہ کی جانب سے سیل نہیں کیا گیا۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر کہا جا رہا ہے کہ اس واقعے سے متعلق سوشل میڈیا پر جو بھی چل رہا ہے وہ سب غلط ہے۔ ہمیں اس قسم کے رویے کی مذمت کرنی چاہیے مگر اس کے بجائے ہم اسے بڑھاوا دے رہے ہیں جو قابل افسوس ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستانی معاشرہ جس پولرائزیشن کا شکار ہے اس کے ثبوت ہمیں وقتاً فوقتاً ملتے رہتے ہیں۔ لوگ بحث کر رہے ہیں کہ حالیہ برسوں میں ایک خاص سیاسی جماعت نے ملک میں ایسا ماحول بنا دیا ہے جہاں عدم برداشت پروان چڑھی ہے اور سیاسی اختلاف ذاتی دشمنیوں میں بدل گئے ہیں۔