کرونا وائرس نے دنیا کا معاشرتی، سیاسی اور معاشی نظام ہلا کر رکھ دیا ہے۔ تاہم اس نے میڈیکل سائنسز میں بھی نئی بحثوں کو جنم دیا ہے۔ کرونا وائرس کس طرح سے ایک مریض کو اپنے نرغے میں لیتا ہے اور پھر اسے موت کے سفر پر لے جاتا ہے اس حوالے سے اب تک ماہرین طب نئی نئی تفصیلات کے سامنے آنے پر شش و پنج میں مبتلا ہیں اور اس حوالے سے مسلسل خبریں آنے کا سلسلہ جاری ہے۔
معروف امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے اپنی متعدد خبروں میں اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ کرونا وائرس صرف اور صرف پھہپھڑوں پر ہی اثر انداز نہیں ہوتا بلکہ یہ دل گردے جگر اور دیگر اعضا کو بھی اچانک بند کر دیتا ہے۔ ایک رپورٹ میں امریکی اخبار نے ایک ڈاکٹر کے حوالے سے بتایا ہے کہ کرونا وائرس جسم کو دھوکہ دیتا ہے۔ یہ باقاعدہ نوسر بازی کی واردات ہوتی ہے۔ یہ جسم کو ایسے سگنلز بھجواتا ہے جس سے جسم کا سینٹرل کمانڈ سسٹم وائٹل آرگنز یعنی لازم اعضا جیسے کہ دل گردہ جگر وغیرہ کو اچانک بند کر دیتا ہے۔ یہ کسی فیکٹری کو اچانک شٹ ڈاون کرنے جیسا ہے۔
اسی حوالے سے پاکستان کے معروف صحافی نصرت جاوید نے بھی ایک کالم لکھا ہے اور اس میں واشنگٹن پوسٹ کی ہی ایک متفرق خبر کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ جن مریضوں کا نظام تنفس کرونا وائرس کی جکڑ میں نہیں آرہا انکے جسم کے دیگر حصوں کو یہ وائرس نقصان دے رہا ہے اور انہیں فالج میں مبتلا کر رہا ہے۔ اور ایسے مریضوں میں نوجوان مریض بھی شامل ہیں۔
صحافی نصرت جاوید لکھتے ہیں کہ عالمی سطح پر معتبر گردانے امریکی اخبار ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ میں ایک تحقیقاتی رپورٹ چھپی ہے۔گزشتہ دودنوں سے بے تحاشہ لوگوں کو اس نے پریشان کررکھا ہے۔اس رپورٹ کے مطابق یہ وباء فقط 60سال سے زائد عمر والے افراد ہی کے لئے جان لیوا ثابت نہیں ہورہی۔ یہ مفروضہ بھی قابل غور ہے کہ کرونا وائرس انسانی جسم میں داخل ہوجانے کے بعد محض ہمارے نظام تنفس کو اپنی جکڑ میں لینے کی کوشش کرتا ہے۔
زشتہ چند ہفتوں کے دوران مذکورہ ہسپتال میں اچانک ان مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا جو فالج کے حملے کے باعث ایمبولینس میں وہاں لائے جارہے تھے۔ ان میں سے اکثر مریض 30سے 50سال کے درمیان والی عمر کے تھے۔
نظر بظاہر فالج کا نشانہ بنے مریضوں کا تشخیصی عمل شروع ہوا تو یہ دریافت ہوا کہ ابتدائی طورپر وہ کرونا کی زد میں آئے تھے۔وائرس جب ان پر حملہ آور ہوا تو ان کے جسم میں فطری طورپر موجود مدافعتی نظام نے بھرپور مزاحمت دکھائی۔ اس مزاحمت کی بدولت وائرس پھیپھڑوں میں داخل نہ ہوپایا تو ان کے دماغ کی جانب بڑھنا شروع ہوگیا۔ وہاں داخل ہونے کے بعد کرونا وائرس دماغ کو خون مہیا کرنے والی رگوں میں قیام پذیر ہوگیا۔
دماغ کی رگوں میں خون کی ترسیل اس ’’ناکے‘‘ کی بدولت رکتی ہے جسے طبی زبان میں Clotکہا جاتا ہے۔فالج کی زد میں آئے مریضوں کے دماغ سے Clotکو نکال کر خون کی روانی بحال کردی جاتی ہے۔ کرونا وائرس سمیت فالج کا شکار ہوئے مریضوں کے دماغ مگر CT Scanکی بدولت دیکھے گئے تو وہاں Clotsایک جال کی صورت پھیلتے نظر آئے۔تناسب کے اعتبار سے لہذا انتہائی قلیل تعداد کو بچانے کی کوششیں بارآور ہوئیں۔ ’’صحت یاب‘‘ ہوجانے کے باوجود ایسے مریضوں کے ہاتھ یا پائوں عمر بھر کے لئے مفلوج ہوگئے۔
انہوں نے لکھا ہے کہ ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ میں چھپی یہ رپورٹ کئی اعتبار سے انتہائی پریشان کن تھی۔ ٹھوس شہادتوں کی بنیاد پر یہ رپورٹ کرونا وائرس کے بارے میں پھیلے کم از کم دو مفروضوں کے ضمن میں اہم ترین سوالات اٹھاتی ہے۔پہلا مفروضہ یہ کہ کرونا ’’نزلہ زکام‘‘ ہی کی ایک قسم ہے جو ہمارے نظام تنفس کو اپنی جکڑ میں لینے کی کوشش کرتا ہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم اور مقبول ترین مگر یہ تصور ہے کہ اگر کرونا وائرس 18سے 50سال کے درمیان والی عمر کے لوگوں پر حملہ آور ہو تو ان کی بے پناہ اکثریت ہمارے جسم میں فطری طورپر موجود مدافعتی نظام کی بدولت زیادہ سے زیادہ دو ہفتوں میں ’’ازخود‘‘ شفایاب ہوجاتی ہے۔
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ 18سے 50سال کے درمیان والے افراد کی اکثریت کو ذہن میں رکھتے ہوئے پاکستان ہی نہیں دُنیا کے بے شمار ملکوں کی حکمران اشرافیہ اصرار کررہی ہے کہ وباء کے موسم میں شہروں کو مسلسل لاک ڈائون کی زد میں نہ رکھا جائے۔ خوف سے گھروں میں محصور نہ رہا جائے۔زیادہ تر کاروبار کھول دئیے جائیں۔
انہوں نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا کسی صحافی نے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی آیا پاکستانی ہسپتالوں میں بظاہر فالج زدہ کیسز میں اضافہ تو نہیں ہو رہا؟ کیونکہ یہ دیکھا اور سمجھا جانا بہت ضروری ہے۔