مارچ 1972 میں جب ذوالفقار علی بھٹو کو پولیس کی جانب سے ہڑتال کا سامنا کرنا پڑا تو وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کردار کے حوالے سے مایوس ہو گئے۔ انہیں خدشہ لاحق ہو گیا کہ حالات مزید خراب ہو جائیں گے۔ کسی ممکنہ آفت کے نازل ہونے سے قبل ہی انہوں نے ایک جرات مندانہ قدم اٹھایا۔ انہوں نے پاکستان آرمی کے نئے تعینات ہونے والے کمانڈر انچیف جنرل ٹکا خان کو بلایا اور انہیں اپنے ارادوں سے متعلق آگاہ کیا۔ اس ملاقات کے تقریباً فوراً ہی بعد فیڈرل سکیورٹی فورس وجود میں آ گئی جو مکمل طور پر جدید ہتھیاروں سے لیس تھی۔ یہ ایک طاقت ور فورس تھی جس کا بنیادی مقصد ذوالفقار علی بھٹو کو سکیورٹی فراہم کرنا اور فوج کی جانب سے ممکنہ بغاوت کو ناکام بنانا تھا، یہ ایسا اندیشہ تھا جو انہیں ہر وقت گھیرے رکھتا تھا۔ یہ فورس براہ راست ایک ہی شخص کے کنٹرول میں تھی اور وہ شخص ذوالفقار علی بھٹو کے سوا کون ہو سکتا تھا۔
فیڈرل سکیورٹی فورس 15 ہزار اہلکاروں کے ساتھ کھڑی کی گئی تھی۔ منصوبہ تھا کہ اس کی طاقت کو مزید بڑھایا جائے گا تاہم وسائل کی کمی کے باعث ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ ملک بھر میں تعینات اس فورس کا اولین فرض امن و امان برقرار رکھنے میں پولیس کو مدد فراہم کرنا، سیاسی جلسوں اور ریلیوں میں سکیورٹی فراہم کرنا، سیاسی مخالفین پر کڑی نظر رکھنا اور مخالفین کو ہر صورت راہ راست پر رکھنا تھا بھلے اس کے لیے انہیں تشدد کا سہارا ہی کیوں نہ لینا پڑ جائے۔ اپوزیشن جماعتوں کا توڑ کرنے کے لیے یہ فورس اپنی متعدد شاخوں کے ذریعے معلومات جمع کرتی تھی اور ممکنہ خطرات پر گہری نظر رکھتی تھی۔
محکمہ پولیس سے تعلق رکھنے والے ایک آفیسر حق نواز ٹوانہ کو فیڈرل سکیورٹی فورس کا پہلا ڈائریکٹر جنرل تعینات کیا گیا۔ جلد ہی ان کی جگہ مسعود محمود نے لے لی جنہوں نے برصغیر کی آزادی سے دو سال قبل انڈین پولیس سروس میں شمولیت اختیار کر کے اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا اور بعد میں لنکنز ان سے قانون کی ڈگری حاصل کی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو اور مسعود محمود کے مابین گہرے مراسم تھے اور مختلف معاملات سے متعلق دونوں اعتماد کے ماحول میں کھل کر تبادلہ خیال کیا کرتے تھے۔ تاہم جب جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کیا اور قصوری قتل کیس کھولنے کا حکم جاری کیا تو مسعود محمود جنرل ضیاء الحق کے اتحادی بن گئے اور ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کے پھندے تک پہنچانے میں انہوں نے ضیاء الحق کا ساتھ دیا۔ یہ کیس ممتاز سیاست دان احمد رضا قصوری کے والد نواب محمد احمد خان قصوری کے 10-11 مارچ 1974 کو ہوئے قتل کی تحقیقات سے متعلق تھا۔
فیڈرل سکیورٹی فورس کے بارے میں واضح نہیں ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو دراصل اس طرح کی فورس تشکیل دینے کی ضرورت کیونکر پیش آئی تھی۔ بہت سارے ادیب اور سماجی سائنس دان سمجھتے ہیں کہ بھٹو کو کسی بھی قسم کی اپوزیشن یا مخالفت گوارہ نہیں تھی۔ ان کا خیال ہے کہ بھٹو عوام کو، خاص طور پر اپنے سیاسی مخالفین کو مسلسل خوف میں مبتلا رکھنا چاہتے تھے۔ یہی اس فورس کی تشکیل کا محرک تھا۔
یہ حقیقت ہے کہ ایف ایس ایف نے تشدد پر مبنی متعدد کارروائیاں سرانجام دیں۔ ان میں سے ڈاکٹر نذیر احمد کا قتل سب سے خوفناک کارروائی تھا۔ جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے رہنما اور ڈیرہ غازی خان سے منتخب ہونے والے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر نذیر احمد ایک بے باک رہنما تھے جو ملک میں آمریت اور شخصی حکمرانی کی کڑی مخالفت کرتے تھے۔ وہ پیپلز پارٹی اور ذوالفقار علی بھٹو کی پالیسیوں پر تسلسل کے ساتھ تنقید کرتے رہتے تھے۔ 8 جون 1972 کو انہیں نامعلوم حملہ آوروں نے اس وقت قتل کر دیا جب وہ اپنے کلینک میں مریضوں کو دیکھ رہے تھے۔ ان کے قتل کا الزام فوری طور پر ایف ایس ایف پر عائد کیا گیا تھا۔
ایک اور پرتشدد واقعہ تب پیش آیا جب 23 مارچ 1973 کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ایک سیاسی جلسے کے دوران فائرنگ ہوئی۔ جونہی جلسہ شروع ہوا، مختلف سمتوں سے فائرنگ شروع ہو گئی جس کے نتیجے میں درجنوں لوگ ہلاک ہو گئے۔ ولی خان نے اس بلا اشتعال فائرنگ کا الزام ایف ایس ایف پر لگایا جس میں کئی معصوم جانیں ضائع ہو گئیں۔ فائرنگ کے اس واقعے کی کبھی تفتیش نہیں کروائی گئی۔
ان کارروائیوں کے علاوہ ایف ایس ایف کی انٹیلی جنس رپورٹس کی بنیاد پر اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے کئی کارکنوں اور سماجی رہنماؤں کے خلاف مقدمات قائم کیے گئے۔ بغاوت کی کسی بھی ممکنہ کوشش کو ناکام بنانے کے لیے بنائی گئی اس فورس کا کردار مذاق بنتا چلا جا رہا تھا اور جو کچھ ہو رہا تھا عوام اس سے اچھی طرح آگاہ تھے۔ ضیاء الحق کے اقتدار سنبھالنے کے بعد نواب محمود احمد قصوری کا مقدمہ چلایا گیا اور ایف ایس ایف کے ڈائریکٹر جنرل مسعود محمود جنہیں بھٹو نے اس عہدے کے لیے بذات خود منتخب کیا تھا، اس مقدمے میں بھٹو کے خلاف بطور ریاستی گواہ پیش ہو گئے اور انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی موت کی راہ ہموار کی۔ بھٹو کے ساتھ ساتھ فیڈرل سکیورٹی فورس کے اہلکاروں میاں عباس، ارشد اقبال، غلام مصطفیٰ اور رانا افتخار کو بھی سزائے موت سنائی گئی۔ بالآخر جولائی 1977 میں ضیاء الحق نے ایف ایس ایف کو ختم کر دیا۔ جو فورس بھٹو نے مخالفین کو دبانے اور فوجی بغاوت سے بچنے کے لیے کھڑی کی تھی وہ نہ بھٹو کی حکومت کو بچا سکی اور نہ ہی اس کی جان کو۔
یہ مضمون انگریزی روزنامے Dawn میں شائع ہوا جسے نیا دور اردو قارئین کے لئے ترجمہ کر کے یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔