کچے کے ڈاکوؤں تک بھاری اسلحہ پولیس کی مدد سے پہنچتا ہے؟

ذرائع کے مطابق ڈاکوؤں کو اسلحہ کی ترسیل میں وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر خاص بابل خان بھیو کے بیٹے جونیئر میر الطاف خان بھیو بھی ملوث ہیں۔ پولیس کارروائی کے بعد 7 ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے جبکہ سندھ پولیس کے ایک اے ایس آئی اور 2 کانسٹیبلز کو بھی حراست میں لیا جا چکا ہے۔

کچے کے ڈاکوؤں تک بھاری اسلحہ پولیس کی مدد سے پہنچتا ہے؟

کچھ روز قبل رات 9 بجے کے قریب جیکب آباد پولیس کو اطلاع موصول ہوئی جہاں پر سپیشل سکواڈ کے انچارج طارق کریم اور ایس ایچ او مولاداد اشتیاق احمد پٹھان نے زیرو پوائنٹ کوئٹہ کراچی بائی پاس پر ایک ویگو گاڑی اور پولیس موبائل کو روک کر تلاشی لی جس سے دوسرے صوبوں سے آنے والے اسلحہ کی بڑی کھیپ پکڑی گئی۔ 3 پولیس اہلکاروں سمیت 7 ملزمان کو بھی پولیس نے حراست میں لے لیا۔

اس غیر قانونی اسلحہ میں ایک عدد جی تھری، ایک عدد ایس ایم جی، میگزین جی تھری 17 عدد، ایس ایم جی 3 عدد، جبکہ 2350 گولیاں شامل ہیں۔ پولیس نے سارا اسلحہ اپنی تحویل میں لے لیا۔

13 مارچ کو وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے دڑی سندرانی میں ایم پی اے میر عابد خان سندرانی کی رہائش پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں حیران ہوں کہ کچے میں ملٹری گرینٹڈ اسلحہ کیسے پہنچ رہا ہے؟ جیکب آباد کے بہادر افسران نے مذکورہ کارروائی کر کے سندھ حکومت کو بتا دیا ہے کہ یہ اسلحہ کیسے کچے کے علاقے میں پہنچتا ہے۔

سرکار کی جانب سے انسپکٹر اشتیاق احمد پٹھان کی مدعیت میں سیکشن 6/7ATA/ACT1997  کے تحت مذکورہ ملزمان ذاکر ولد شعبان بھیو، اختیار علی عرف زاہد حسین لاشاری، نبیل احمد بھیو اور توفیق احمد گجر کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ یہ ملزمان اسلحہ اور گولیوں سمیت گرفتار ہوئے ہیں جبکہ ویگو کے ساتھ ایک پولیس موبائل بھی تھی۔ یہ پولیس موبائل ضلع شکارپور کی ہے جس میں ایک اے ایس آئی امتیاز علی بھیو سمیت 2 پولیس کانسٹیبلز ثناء اللہ منگنھار اور بقا اللہ انڑ سوار تھے، انہیں بھی شک کی بنیاد پر گرفتار کر لیا گیا ہے۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

کشمور، شکارپور اور گھوٹکی سمیت سندھ کے تین اضلاع جہاں غیر قانونی اسلحہ کی خرید و فروخت کا سرعام بازار کھلا ہوا ہے، اس میں پولیس و دیگر خاص شخصیات کی آشیرباد سے انسانوں کے خاتمے اور دہشت پھیلانے کا سلسلہ بلا روک ٹوک چل رہا ہے۔

ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ اسلحہ کی ترسیل میں وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر خاص بابل خان بھیو کے بیٹے جونیئر میر الطاف خان بھیو شامل تھے۔ جب یہ کارروائی ہوئی تو سندھ کے سارے وزرا جونیئر الطاف خان کو مقدمے سے بچانے کے لیے سرگرم ہو گئے اور انہوں نے اپنی چوری کو چھپانے کے لیے میر الطاف خان بھیو کو چھڑا لیا۔

مشیر وزیر اعلیٰ سندھ میر بابل خان بھیو کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ کے مشیر کے عہدے سے مستعفی ہو گیا ہوں، کیونکہ جیکب آباد سانحہ کے باعث میرے بیٹے میر الطاف خان بھیو کی گاڑی اور پولیس موبائل کو جیکب آباد پولیس نے غیر قانونی طور پر کارروائی کر کے میری ویگو گاڑی سمیت تحویل میں لے کر 7 ملزمان کو گرفتار کیا ہے جو کہ انتہائی غیر قانونی عمل تھا جس کی شدید لفظوں میں مذمت کرتا ہوں اور عوامی عدالت میں آ کر اپنی اور اپنے بیٹے کی صفائی پیش کروں گا تا کہ عوام کو معلوم ہو سکے کہ جیکب آباد پولیس نے خود ڈرامہ رچا کر مجھے اور میرے بیٹے کو بدنام کیا ہے۔ میں یہ سب برداشت نہیں کر سکتا اس لیے اپنے عہدے سے سبکدوش ہوا ہوں۔

صدر ڈسٹرکٹ بار ایڈووکیٹ محسن پٹھان کا کہنا ہے کہ بابل خان بھیو صاحب ایک معتبر اور قد آور شخصیت کے مالک ہیں جن کا امن و امان کے حوالے سے بہت اچھا کردار رہا ہے۔ انہوں نے اپنے اہل خانہ پر عائد الزامات کے حوالے سے بڑا دلیرانہ فیصلہ کرتے ہوئے اپنے عہدے سے سبکدوش ہو کر ثابت کیا ہے کہ وہ جرائم کے خلاف ہیں اور خود کو ایک فیئر اور شفاف تحقیقات کے حوالے کر کے عوامی عدالت میں ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ ہم اس حوالے سے متعلقہ اداروں سے فیئر انویسٹی گیشن کی قدر کرتے ہیں۔ اگرچہ سرعام غیر قانونی اسلحہ سمگل کرنے کے دوران پولیس افسران نے کارروائی کر کے عوام کو بڑے نقصان سے بچا لیا ہے جنہیں ہم خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکوؤں کے پاس جدید اسلحہ کیسے پہنچتا ہے۔ سندھ حکومت یہ بیانات دیتی ہے کہ اسلحہ کیسے پہنچتا ہے مگر تاحال پولیس و دیگر اداروں کی جانب سے اسلحہ کی فروخت کے کاروبار کو نہیں رکوایا جا سکا۔

حضور بخش منگی 15 سالوں سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ آج کل کندھ کوٹ میں آج نیوز کے رپورٹر ہیں اور کندھ کوٹ پریس کلب کے جوائنٹ سیکرٹری بھی ہیں۔