موبائل سروس بند کرنے سے کچے کے ڈاکوؤں کا خاتمہ ہو سکتا ہے؛ پولیس

ایس ایس پی بشیر احمد بروہی نے کہا کہ ہم ڈاکوؤں کے خاتمے کے لیے پرعزم ہیں مگر ان لوگوں کا کیا کریں جو رانگ نمبر پر خود ڈاکوؤں کے پاس چلے جاتے ہیں۔ ڈاکو ڈیجیٹل طریقوں سے لوگوں کو اغوا کر رہے ہیں، مثلاً فیس بک پر سستی گاڑیوں کے اشتہارات دے کر لالچی لوگوں کو پھنساتے ہیں۔

موبائل سروس بند کرنے سے کچے کے ڈاکوؤں کا خاتمہ ہو سکتا ہے؛ پولیس

ضلع کشمور سندھ، پنجاب اور بلوچستان کے سنگم پر واقع سندھ کا وہ ضلع ہے جہاں ڈاکوؤں کی ایک ریاست قائم ہے۔ اس ضلع میں کچے کا ایریا شامل ہے جس میں گبلو، درانی مہر، کچو کیٹی، میانی، حاجی خان شر، گڑھی تیغو، ناپر کوٹ، ڈیرا سرکی سمیت چھوٹے چھوٹے علاقے آتے ہیں۔ یہ خاصی تشویش ناک بات ہے کہ یہاں کے لوگ ڈاکو بن گئے ہیں۔ ان ڈاکوؤں کا عزم امن کو برباد کرنا ہے۔ انہوں نے لوگوں سے لاکھوں کروڑوں لوٹنے کے نت نئے طریقے ایجاد کر رکھے ہیں۔ ماہ صیام کے پہلے عشرے میں کندھ کوٹ، کشمور اور تنگوانی، شکارپور، گھوٹکی سے سینکڑوں افراد اغوا کیے جا چکے ہیں۔

سندھ کے تین اضلاع ڈاکوؤں کے قبضے میں ہیں۔ ان اضلاع میں کشمور، شکار پور اور گھوٹکی شامل ہیں۔ مقامی لوگ مہنگائی اور بے روزگاری سے پریشان ہونے کے ساتھ ساتھ بدامنی سے بھی دوچار ہیں۔ ہر شخص اپنا تحفظ کرنے کے لیے اسلحہ ساتھ رکھنے پر مجبور ہو گیا ہے۔

چند روز قبل سکول ٹیچر استاد اللہ رکھیو نندوانی نے سکول جاتے ہوئے بندوق ہاتھوں میں لیے ایک ویڈیو بیان جاری کیا تھا جسے ایک ہفتے کے اندر ڈاکوؤں نے سر عام قتل کر دیا۔ ماہ صیام کے پہلے عشرے میں اغوا، ڈکیتی اور قتل کے واقعات میں ریکارڈ اضافہ ہوا۔ اغوا ہونے والوں کی تعداد 20 سے تجاوز کر گئی ہے۔

ان اغوا ہونے والوں میں بی سیکشن تھانہ کی حدود سے در محمد گولو، علی بہار سہریانی، شمن علی سہریانی، ذیشان سہریانی، صدر الدین میرانی، خالد علی میرانی اور پی ایس غوث پور سے جاوید شیخ، محمد رافع سمیجو، گل محمد گولو، منور علی چنو، مجید ٹانوری شامل ہیں۔ ان کے علاوہ پی ایس تنگوانی کی حدود سے عباس جعفری، پی ایس میانی سے شیر محمد بھٹو، پی ایس کشمور سے علی داد کلوڑ، پی ایس کرم پور سے عبید اللہ سمیجو، علی شیر سیخ، سہراب شیخ، میر خان شیخ، پی ایس بخشاپور سے محمد ظہیر عرف ننڈو جکھرانی، پی ایس ای سیکشن سے شاہ محمد چاچڑ شامل ہیں۔

ان مغویوں میں سے محمد رافع سمیجو سے ڈاکوؤں نے ایک کروڑ تاوان طلب کیا اور نہ ملنے کی وجہ سے 7 مارچ کی صبح جنگن تھانہ کی حدود میں بے دردی سے قتل کر کے لاش پھینک دی۔ دوسرا واقعہ شبیر آباد تھانہ کی حدود میں پیش آیا جہاں استاد اللہ رکھیو سے موٹر سائیکل چھیننے کی واردات کے دوران استاد کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

گذشتہ دو ماہ سے کچے کے علاقے میں پولیس اور رینجرز کا آپریشن ڈاکوؤں کا بال بیکا تک نہ کر سکا۔ ڈاکو کچے سے پکے میں آ کر لوگوں کو اغوا کرنے اور لوٹ مار کی وارداتیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مذکورہ مغویوں کے ورثا غم سے نڈھال ہیں۔

پولیس نے ان مغویوں میں سے خالد میرانی، صدر الدین میرانی اور منور علی چنو کو بازیاب کرا لیا ہے۔

استاد اللہ رکھیو کے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے شبیر آباد کے علاقے میں چھٹے روز بھی آپریشن میں قاتلوں کی گرفتاری ممکن نہ ہو سکی۔ پولیس نے 40 سے زائد مشتبہ افراد گرفتار کر لیے ہیں۔ ایس ایس پی بشیر احمد بروہی کے ترجمان کے مطابق رواں ماہ 26 پولیس آپریشن ہوئے ہیں جن میں 2 ڈاکو ہلاک اور 12 زخمی ہوئے ہیں۔ پولیس ریکارڈ میں 39 افراد کو بازیاب کرانے کا دعوٰی بھی کیا گیا ہے۔

گذشتہ ایک سال میں 5 پولیس اہلکار، 3 سکول ٹیچرز سمیت 10 افراد کو ڈاکوؤں نے تاوان نہ ملنے پر قتل کر دیا۔ قتل ہونے والوں میں ہیڈ محرر مقصود احمد بنگوار، ہیڈ محرر حاندل ڈومکی، اہلکار صابر علی، ہیڈ کانسٹیبل ادب علی جکھرانی، اہلکار روشن الدین، استاد جمن جکھرانی، استاد مراد علی بنگوار، استاد اللہ رکھیو نندوانی، محمد رافع سمیجو اور حاجی محمد پناہ شامل ہیں۔

ایڈووکیٹ عبدالغنی بجارانی کا کہنا ہے کہ تاریخ میں پہلی بار ایسی بدامنی کی لہر چل پڑی ہے کہ لوگ اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ پولیس مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔

ڈسٹرکٹ بار کے ضلعی صدر ایڈووکیٹ محسن پٹھان کہتے ہیں کہ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب علی یہاں دورہ کرنے پہنچے تھے، بدامنی کا سن کر ایس ایس پی سے برہمی کا اظہار کیا، اس کے بعد چیف جسٹس سندھ نے آئی جی سے نوٹس لینے کا کہا، میٹنگ بھی ہوئی، ڈسٹرکٹ بار نے اہم کردار ادا کیا۔ ہمارے ضلع کشمور میں سب سے اہم مسئلہ بدامنی ہے۔ اب لوگ مہنگائی، بے روزگاری بھول گئے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کا تحفظ چاہتے ہیں۔ ریاست کی رٹ کمزور ہو چکی ہے اور ڈاکو طاقتور بن گئے ہیں۔ قانون کے مطابق سزا اور جزا پر عمل درآمد ہو تو پھر اس مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ یہاں تو اندھیر نگری، چوپٹ راج ہے۔ کوئی آواز اٹھاتا ہے تو اسی کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ پولیس سے بدامنی کنٹرول نہیں ہو رہی۔ اب آرمی کو آنا چاہیے تب جا کر ان ڈاکوؤں کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔

مقامی کلاتھ مارکیٹ کے صدر پالاج تلریجا کہتے ہیں کہ کندھ کوٹ وانا وزیرستان بن گیا ہے، عید قریب ہے مگر لوگوں میں خوشی کم اور خوف زیادہ دکھائی دے رہا ہے۔ کاروبار مکمل مندی میں چل رہا ہے۔ ماہ صیام کے پہلے عشرے میں جہاں 100 فیصد خریداری ہو جاتی تھی وہاں 20 فیصد ہوئی ہے۔ وجہ صرف بدامنی ہے۔ پہلے مارکیٹ رات 10 بجے تک کھلی رہتی تھی مگر اب 5 بجے شہر ویران ہو جاتا ہے۔

ایس ایس پی بشیر احمد بروہی نے کہا کہ ہم ڈاکوؤں کے خاتمے کے لیے پرعزم ہیں مگر ان لوگوں کا کیا کریں جو رانگ نمبر پر خود ڈاکوؤں کے پاس چلے جاتے ہیں۔ ڈاکو ڈیجیٹل طریقوں سے لوگوں کو اغوا کر رہے ہیں، مثلاً فیس بک پر سستی گاڑیوں کے اشتہارات دے کر لالچی لوگوں کو پھنساتے ہیں۔ عشق کے چکر میں عاشق بن کر لوگ کچے کے علاقے میں پہنچ جاتے ہیں۔ جب تک موبائل سروسز بند نہیں کی جائیں گی تب تک ڈاکوؤں کا خاتمہ ممکن نہ ہو سکے گا۔

رواں ماہ مارچ کے مہینے میں مغویوں کی تعداد 22 ہو چکی ہے جن میں سے 3 مغویوں کو بازیاب کروایا جا سکا ہے جبکہ دیگر تاحال ڈاکوؤں کی تحویل میں ہیں۔ سندھ حکومت کو چاہیے کہ سندھ کے تینوں اضلاع میں امن دشمنوں کا صفایا کر کے علاقے میں امن و امان بحال کیا جائے۔

حضور بخش منگی 15 سالوں سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ آج کل کندھ کوٹ میں آج نیوز کے رپورٹر ہیں اور کندھ کوٹ پریس کلب کے جوائنٹ سیکرٹری بھی ہیں۔