نواز شریف کا فیصلہ اب تاریخ کے ہاتھ ہے

نواز شریف کا فیصلہ اب تاریخ کے ہاتھ ہے
صحافی کے بھی ایک عام انسان کی طرح تعصبات ہوتے ہیں جو کہ فطری بات ہے۔ جس طرح ایک شخص اپنی جماعت کے حق میں اپنے جذبات کا اظہار کرتا ہے اسی طرح صحافی بھی اپنی پسندیدہ جماعت کا ممکنہ حد تک دفاع کرتا ہے جو ہمیں اس کی تحریر اور تقریر میں نظر آتا ہے لیکن جب وہی صحافی کسی پروگرام میں تجزیہ کار بن کر بیٹھا ہو تو اپنی رائے کو بہت حد تک معتدل رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔

ہارون الرشید کا تہلکہ خیز انکشاف

یہ ایک معلوم حقیقت ہے اور جناب ہارون الرشید خود اس بات کا اقرار کر چکے ہیں کہ انہوں نے اپنی زندگی کے سولہ برس تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان صاحب کی نذر کیے ہیں۔ اگر اتنی طویل رفاقت کے بعد وہ بحثیت ایک تجزیہ کار یہ کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کو جب جیل سے ہسپتال لے جایا گیا تو وہاں انہیں ایک اور ڈیل کی پیشکش کی گئی اور یہ بھی کہا گیا کہ عمران خان آ رہا ہے، پھر کسی قسم کی ڈیل مشکل ہو جائے گی لیکن میاں نواز شریف نے صاف انکار کر دیا۔ بقول ہارون الرشید ہر شخص کی طرح میاں صاحب بھی قید سے رہائی چاہتے ہیں لیکن کسی بھی قسم کے سمجھوتے سے انکاری ہیں۔



ہمارے معاشرے میں صحافی کو بہت دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن وہ پھر بھی کسی نہ کسی پیرائے میں حقیقت کو بیان کر ہی دیتا ہے

تعصب کے بارے میں جو پہلے عرض کیا اس کو یوں سمجھنے کی کوشش کریں کہ اپنی علیل بیگم کی عیادت کے لئے میاں صاحب لندن میں تھے. جب احتساب عدالت نے انہیں سزا سنائی تو تعصب کا شکار چند صحافی اور بیشتر اینکر حضرات یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ میاں صاحب اب واپس نہیں آئیں گے اور یہ بات وہ اپنی پسندیدہ جماعت یا کچھ خاص لوگوں کے کہنے پر کہہ رہے تھے، لیکن میاں صاحب نے آ کر ان کے غبارے سے ہوا نکال دی۔ جب پہلی پلان ناکام ہو گیا تو دوسرے پلان پر کام شروع ہو گیا کہ میاں صاحب جیل سے رہائی کے لئے این آر او چاہتے ہیں۔ اگر میاں صاحب این آر او کرنا چاہتے ہیں تو ہارون الرشید صاحب کیوں مختلف بات کہہ رہے ہیں؟ دراصل یہی وہ فرق ہے جو ایک صحافی اور اینکر کا کردار واضح کرتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں صحافی کو بہت دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن وہ پھر بھی کسی نہ کسی پیرائے میں حقیقت کو بیان کر ہی دیتا ہے۔

تاریخ ہمیشہ سچ سامنے لا کر رہتی ہے

لیڈر کی زندگی پھولوں کی سیج نہیں کانٹوں کا بستر ہوتا ہے اور جو مشکلات نہیں سہہ سکتا وہ کبھی بھی لیڈر نہیں کہلا سکتا۔ پانامہ کے نام پر میاں صاحب اور ان کے خاندان کے ساتھ جو ہتک آمیز سلوک روا رکھا گیا بلکہ آج تک جاری ہے یہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔ ایک ایسا مقدمہ جس میں میاں صاحب کا کہیں نام نہیں تھا اس میں نہ صرف میاں صاحب کو پہلے وزارتِ عظمیٰ سے اور پھر پارٹی کی صدارت سے ہاتھ دھونا پڑے بلکہ ججز کے ریمارکس کی صورت میں تضیک آمیز سلوک کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ تاریخ ہمیشہ سچ سامنے لا کر رہتی ہے اور وقت آنے پر وہ اس پتلی تماشہ کے تمام پسِ پردہ کرداروں کو بھی عوام کی عدالت میں بے نقاب کر دے گی۔

مصنف ایک سیاسی ورکر ہیں۔