وزیراعظم عمران خان نے عالمی برادری سے افغانستان میں طالبان کی حکومت کی مدد کرنے کا مطالبہ کر دیا۔
اپنے ایک بیان میں وزیر اعظم پاکستان نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ طالبان سب کو عام معافی دے چکے ہیں اور انسانی حقوق کی پاسداری کا یقین دلا چکےہیں۔
عمران خان کا کہنا تھا طالبان کے اعلان کے بعد اب یہ کہنے کا کیا مطلب ہے کہ وہ اپنے الفاظ پر قائم رہیں گے یا نہیں، جب قائم نہیں رہیں گے تب کی تب دیکھیں گے، ابھی تو دنیا کو افغانستان میں امن کے لیے ان کی مدد کرنی چاہیے۔
قبل ازیں پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا تھا کہ توقع ہے طالبان خواتین اور انسانی حقوق سے متعلق عالمی برادری سے کئے گئے وعدے پورے کریں گے ، افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی، پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنانے کی کوششوں پر خاموش نہیں رہ سکتے، افغانستان میں امن اور استحکام کیلئے اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے،وطن کیلئے اپنے آپ کو وقف کرنے کا عہد، پاکستان دٴْشمنوں کے دِلوں میں خوف کی علامت ہے،ز ندگی کے تمام چیلنجز میں ایمان، اتحاد اور نظم کے رہنما اٴْصول آپ کیلئے مشعل راہ ہیں، دٴْنیا کی کوئی طاقت ایک متحد قوم کو کسی قسم کی گزند نہیں پہنچا سکتی،مضبوط افواج ہی دِفاع وطن کی ضمانت ہیں،کشمیر کیساتھ کھڑے ہیں اور ہمیشہ کھڑے رہیں گے۔
رواں ماہ افغانستان کے دارالحکومت کابل میں طالبان کے کنٹرول کے بعد جہاں روس اور چین کی جانب سے افغانستان میں طالبان کی حکومت کی حمایت کا اعلان کیا گیا ہے وہیں پاکستانی حکام نے مؤقف اختیار کیا کہ عالمی سطح پر رد عمل کو دیکھنے کے بعد طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے سے متعلق فیصلہ کریں گے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے طے کرلیا ہے کہ آئندہ اپنی سرزمین کسی کیخلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے ،امن میں معاونت کاری ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون ہے ، افغانستان میں فوج اپنی کرپٹ حکومت کے تحفظ کیلئے نہیں لڑی، افغانستان گزشتہ 40سال سے خانہ جنگی اور انتشار کا شکارہے ،افغان بہادر قوم ہیں جنہوں نے 10لاکھ شہادتوں کے باوجود ہار نہیں مانی،عالمی برادری کو افغانستان کی مدد کرنی چاہیے ،طالبان مخلوط حکومت ، انسانی حقوق اور اپنی سرزمین دہشتگردی کیلئے استعمال نہ کرنے کااعلان کرچکے ہیں، اگر طالبان سارے افغان دھڑوں کو ملا کر امن کی بات کر رہے ہیں تو ان کی مدد کرنی چاہیے ، ہمیں طالبان کی بات پر یقین کرنا ہے ، جب طالبان اپنی بات پرقائم نہیں رہیں گے تو اس وقت کی اس وقت دیکھی جائے گی، یورپ کو افغانستان میں صرف خواتین کی فکر ہے ،کبھی کسی نے باہر سے آکر کسی ملک میں خواتین کو حقوق دلائے ؟