پانچ دن پہلے گڑھی خدا بخش میں بینظیر بھٹو کے مزار پر مجھے ان کی سوانح حیات میں لکھا گیا ایک واقعہ یاد آیا۔ جس میں بی بی لکھتی ہیں کہ وہ بہت چھوٹی تھیں جب ایک بار ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو ان کو شام کے وقت اپنے گھر کے ساتھ ملحق قبرستان میں لے گئے اور کہا "پنکی یہاں پر ہمارے آبا و اجداد دفن ہیں۔ تم دنیا میں جہاں بھی چلی جاو مگر تمہیں لوٹ کر یہیں آنا ہے اور مرنے کے بعد دفن بھی یہیں ہونا ہے۔ کیونکہ یہ مٹی اور یہ لوگ ہی تمہارا اصل ہیں۔ اس لیے زندگی میں اپنے اصل کو مت بھولنا"۔
پنکی کو اس طرح اپنے بابا کے پہلو میں مدفن دیکھ کر محسوس ہوا کہ انھوں نے کس طرح اپنے بابا کی لاج رکھی کہ دو ہزار سات میں تمام تر دباؤ کے باوجود اپنی جلا وطنی ختم کر کے ہر طرح کے خطرات کے باجود وہ وطن واپس آئیں۔ ان کو کہا گیا کہ اگر وہ آئیں گی تو ان کو اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑیں گے۔ ان کے آنے پر اٹھارہ اکتوبر دو ہزار سات کو کارساز کراچی میں ایک بم دھماکہ کر کے سینکڑوں بے گناہ کارکنوں کی جان لی گئی۔
بی بی اس دھماکے میں بال بال بچ گئیں۔ تب بھی اگر وہ چاہتیں تو اپنی جان بچانے کےلیے واپس جا سکتی تھیں مگر وہ اپنے بابا کی بات یاد رکھتے ہوئے نہ جھکیں اور نہ ڈریں۔
اور پھر وہ 27 دسمبر 2007 کا دن مجھے بی بی کی قبر پر بیٹھے ہوئے یاد آیا جب پنجاب یونیورسٹی سے چھٹیوں کی وجہ سے میں اپنے گاوں میں تھا۔ اور بی بی کی لیاقت باغ کے جلسے میں کی گئی تقریر سنی ۔ اور تھوڑی دیر بعد ہی خبر آئی کہ وہاں پر بم دھماکہ ہو گیا ہے اور بی بی شدید زخمی ہیں۔ اضطراب کی اس کیفیت میں دل سے دعا نکلی کہ مولا بی بی کو بچا لے۔ کیونکہ اس وقت وہ ایک ایسی امید بن کر آئی تھیں جو ہمارے ملک کی تقدیر بدل سکتی تھیں۔ مگر کچھ ہی دیر بعد ٹی وی پر ان کی شہادت کی خبر جب چلی تو میں سکتے میں آگیا اور یہی محسوس ہوا کہ میڈیا پر غلط خبر بھی چلا دی جاتی ہے۔ اور کاش یہ خبر بھی غلط ہی ہوتی مگر ایسا نہ ہوا۔
اس خبر نے دل چیر کر رکھ دیا تھا اور ایک ایسا درد تھا جو برداشت نہیں ہو پارہا تھا۔ بس آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ کیونکہ یہ وہی وقت تھا جب بی بی کو سیاست میں ان کی ہمت اور کردار کی وجہ سے آئیڈیل ماننا شروع کیا تھا کہ وڈیروں اور سرداروں کی سرزمین پر ایک عورت اتنے مردوں کے مقابلے میں آگئی تھی۔ جس کے والد کو بغیر کسی قصور کے پھانسی لگا دیا گیا ۔ اس نے اپنے والد کی اس سیاست کو سنبھالا اور کیا کمال سنبھالا کہ ضیاءالحق جیسا آمر بھی اس کے سامنے نہ ٹھہر سکا۔
پھر جب تک وہ سیاست میں رہیں ، انھوں نے اپنی پارٹی کے کارکنوں سے ویسا ہی برتاو رکھا، جیسا ان کے بابا رکھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ 1986 میں ضیاء الحق کی آمریت ہو یا پرویز مشرف کا 2007 کا دور، دونوں دفعہ جب بی بی باہر سے پاکستان آئیں تو ان کا ایسا فقید المثال استقبال کیا گیا کہ اسے آج بھی دنیا یاد رکھتی ہے۔ حکومت میں رہ کر بھی ان کا رابطہ اپنے کارکنوں سے نہ ٹوٹتا تھا اور اپوزیشن میں تو وہ اور بھی متحرک ہو جاتی تھیں۔
اس کے ساتھ ان کے اپوزیشن کے ادوار میں مسلم لیگ (ن) کی طرف سے ان پر کیا کیا ظلم نہیں ڈھائے گئے۔ جھوٹے مقدمات بنائے گئے۔ جیلوں میں ڈالا گیا۔ کردار کشی کی آخری حدوں کو چھوا گیا مگر ان باہمت خاتون نے اس سب کو نا صرف خندہ پیشانی سے برداشت کیا بلکہ اس کے ساتھ اپنے بچے بھی پالے اور سیاسی طور پر متحرک بھی رہیں۔
یہی وجہ ہے یہ سب ظلم ڈھانے والے آج اس سب پر نا صرف شرمندہ ہیں۔ بلکہ بی بی کی سیاست اور کردار کے معترف بھی ہیں۔
بی بی کو شہید ہوئے آج بارہ سال ہو گئے ہیں ۔ مگر وہ آج بھی لاکھوں، کروڑوں لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ اور ان کی شہادت میں ملوث پائے جانے والے یا تو اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں یا پھر پہنچ رہے ہیں مگر ان کے جانے سے ایک خلا بھی پیدا ہو گیا جو کہ ابھی تک پُر نہیں ہو سکا۔ اس خلا کا سب سے زیادہ فائدہ عمران خان صاحب کو ہوا۔ کیونکہ دو ہزار آٹھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت بن جانے کے بعد آصف زرداری صدر تو بن گئے، مگر وہ لیڈر نہ بن سکے۔
میاں نواز شریف کو دو چانس پہلے مل چکے تھے۔ اس لیے کافی لوگوں نے عمران خان سے امیدیں لگا لیں کہ وہ اب لیڈر بن کر ملک کے حالات سنواریں گے۔ مگر وقت نے ثابت کیا کہ عمران خان صاحب میں ایسی صلاحیت ہی نہیں تھی کہ وہ اس خلا کو پُر کر سکتے ۔اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بی بی اگر آج زندہ ہوتیں تو عمران خان صاحب کو کسی نے پوچھنا بھی نہیں تھا۔ اور ہمارے ملک کے حالات بھی اس وقت بہت اچھے ہوتے۔ اب بلاول اگر اپنے والد آصف زرداری کی سوچ سے آزاد ہو کر اگر اپنے نانا اور اپنی ماں کی سوچ اور فلسفے کو مکمل اپنا لیں تو شاید وہ کچھ بہتری لا سکیں۔
ستائیس دسمبر کا دن اب ہمیشہ کےلیے کرب، دکھ اور غم کا دن بن گیا ہے ۔ کیونکہ اس دن جس پاپا کی پنکی کو موت کی نیند سلایا گیا تھا۔ اس نہتی لڑکی نے بندوقوں والوں کو ڈرا دیا تھا۔ اور ایک مرتبہ نہیں بلکہ کئی دفعہ ڈرایا۔ یہی وجہ تھی کہ انھی بندوقوں والوں نے چھپ کر اس پر وار کیا کیونکہ وہ اس کی ہمت، حوصلے اور جذبے کو برداشت نہیں کر پا رہے تھے۔ ان کو پتا تھا کہ اس دفعہ اگر بی بی کو موقع مل گیا تو پھر شاید کبھی ان کی دال نہ گل پائے۔ اسی لیے تو انھوں نے یہ گھناونا جرم کیا مگر بی بی کی سوچ کو وہ ختم نہ کرسکے کیونکہ آج بی بی میرے جیسے لاکھوں لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں اور ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ یہی کچھ حسن مجتبیٰ صاحب کی نظم کے ان ٹکڑوں میں کہا گیا ہے:
وہ لڑکی لال قلندر تھی
قریہ قریہ ماتم ہے اور بستی بستی آنسو ہیں
صحرا صحرا آنکھیں ہیں اور مقتل مقتل نعرہ ہے
وہ قوم کی بیٹی تھی
جو قتل ہوئی وہ خوشبو ہے
وہ عورت تھی یا جادو تھی
وہ مردہ ہوکر زندہ ہے
تم زندہ ہوکر مردہ ہو
وہ دکھی دیس کی کوئل تھی
وہ لڑکی لال قلندر تھی !
ٹیگز: بے نظیر بھٹو
مصنف جامعہ پنجاب سے ابلاغیات میں ماسٹرز کر چکے ہیں، سیکولرازم کے حامی اور سیاست، ادب اور موسیقی سے شغف رکھتے ہیں۔