کامران شفیع نے کہا ہے کہ بینظر بھٹو شہید کے بہت سے پلان تھے لیکن انھیں اقتدار سے ہٹا دیا گیا۔ وہ خواتین کیلئے بہت سے کام کرنا چاہتی تھیں۔ وہ انھیں مضبوط اور اپنے پائوں پر کھڑا دیکھنا چاہتی تھیں لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے بینظیر بھٹو صاحبہ کیساتھ بہت مشکل وقت گزارا کیونکہ غلام اسحاق خان اور جنرل اسلم بیگ ایک ساتھ متوازی حکومت چلا رہے تھے۔ دونوں نے اپنے اپنے بندے ان کی کابینہ میں چھوڑے ہوئے تھے۔
نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ میں نے ایک مرتبہ محترمہ سے درخواست کی کہ آپ استعفیٰ دیدیں۔ میں آپ کو پی ٹی وی لے کر جائوں گا اور آپ بس وہاں جا کر کہہ دیں کہ میں عوام کیلئے کچھ کرنا چاہتی ہوں لیکن مجھے ایسا کرنے نہیں دیا جا رہا۔ آپ کے وزرا آپ کا ساتھ نہیں دے رہے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ میری عوام پہلے ہی بہت کچھ دکھ جھیل رہی ہے۔ میں کیا مریخ سے بندے لائوں؟ مجھے انھیں لوگوں کیساتھ ہی کام کرنا پڑے گا۔
ایک اور واقعہ بیان کرتے ہوئے کامران شفیع کا کہنا تھا کہ میں نے ایک مرتبہ بینظیر بھٹو سے کہا کہ مجھے میڈیا کو منہ بند کرانے کیلئے پیسے دیں۔ یہ سن کر محترمہ نے کہا کہ کیوں؟ کیا ہم ان جیسے بن جائیں۔ یہ سن کر میں نے ان سے معذرت کی۔
پروگرام کے دوران گفتگو کرتے ہوئے مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ بینظیر بھٹو سیاستدانوں کی اس کھیپ میں سے تھیں جو پڑھتے اور لکھتے ہیں۔ ہمارے آج کے سیاستدان نہ تو پڑھتے ہیں، نہ لکھتے ہیں اور نہ ہی سوچتے ہیں۔
مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ وہ ایک بہت بہادر خاتون تھیں۔ کوئی ان کو جھکا نہیں سکا۔ عوام کیساتھ ان کا اٹوٹ رشتہ تھا۔ وہ لوگوں کے دکھ اور سکھ میں شریک رہتیں اور اس کے بغیر نہیں رہ سکتی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ معاف کرنے کی جو ان میں صلاحیت تھی، کوئی بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ مجھے نہیں پتا کہ ایک خاتون اور ماں ہونے کی حیثیت سے یہ چیز ان کے اندر موجود تھی یا زندگی میں جو پریشانیاں اور مشکلات انہوں نے جھلیں، اس نے انھیں ایسا رحم دل کر دیا تھا۔