Get Alerts

'ریجیکٹڈ کی ٹویٹ پر میاں صاحب کو لگا جیسے ان کے منہ پر تھپڑ مارا گیا ہو'

مریم نے کہا کہ دونوں ہی ٹارگٹ تھے۔ مجھے اس لیے ٹارگٹ بنایا گیا کیونکہ میں نے میاں صاحب کو اکیلے نہیں چھوڑا۔ ان کو ایک ایسا ساتھی مل گیا جس نے انہیں کہا کہ اگر کمپرومائز نہیں کیا تو بہت اچھا کیا۔ آپ خود یا آپ کی فیملی نقصان اٹھا لے لیکن ایسا کوئی غلط کام نہیں کرنا جس سے آئین میں غلط مثال بنے۔ تب میں میاں صاحب کے لیے ان کا سوشل میڈیا ہینڈل کرتی تھی اور وزیر اعظم پر ذاتی حملوں کا جواب دیتی تھی۔ تو مخالفین کو لگا شاید میں ان کے لیے رکاوٹ ہوں اور جو چیزیں آرام سے چل سکتی تھیں میری وجہ سے نہیں ہو رہیں۔

'ریجیکٹڈ کی ٹویٹ پر میاں صاحب کو لگا جیسے ان کے منہ پر تھپڑ مارا گیا ہو'

ڈان لیکس کوئی لیکس نہیں تھیں، پانامہ کی طرح کی خودساختہ کہانی تھی جس کا مقصد آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی جانب سے مدمت ملازمت میں توسیع کے لیے وزیر اعظم پر دباؤ ڈالنا تھا۔ جن لوگوں نے ڈان لیکس کا ایشو بنایا انہوں نے سوچا کہ جو بھی کسی غیر آئینی کام میں رکاوٹ بن رہا ہے اس کو عبرت کا نشان بنا دیا جائے۔ ڈان لیکس کے دوران ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے ' ریجیکٹڈ' کی ٹویٹ بھی کی گئی جس کے بارے میں میاں صاحب نے کہا کہ انہیں ایسا لگا جیسے کسی نے ان کے منہ پر تھپڑ مارا ہو کیونکہ یہ صرف ان کی نہیں بلکہ عوام کے منتخب وزیر اعظم کی توہین تھی۔ یہ کہنا تھا مسلم لیگ ن کی نائب صدر اور وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کا۔

سینیئر صحافی عاصمہ شیرازی نے اپنے یوٹیوب چینل پر وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کا خصوصی انٹرویو نشر کیا ہے۔ یہ انٹرویو اس وقت کا ہے جب 18 جولائی 2018 کو پانامہ لیکس کے تحت ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز کو سات سال قید اور 20 لاکھ برطانوی پاؤنڈ جرمانے کی سزا سنائی گئی تھی اور مریم نواز خود کو قانون کے سامنے سرنڈر کرنے کے لیے وطن واپس آ رہی تھیں۔ صحافی عاصمہ شیرازی نے مریم نواز کا انٹرویو وطن واپسی کے دوران ہوائی جہاز میں ریکارڈ کیا تھا تاہم، بااثر حلقوں کی جانب سے اس وقت اس انٹرویو کو نشر کرنے سے روک دیا گیا تھا۔

مریم نواز نے کہا کہ اس سے پہلے بھی میں نے سفر کیے تھے جیسے 1999 میں جنرل مشرف کے اقتدار پر قبضے کے بعد جلاوطن ہو کر پاکستان سے جانا اور پھر واپس آنا پڑا تھا۔ اس سفر اور اب کے سفر میں فرق یہ ہے کہ وہ میں نے ایک سیاسی لیڈر اور سابق وزیر اعظم کی بیٹی کے طور پر کیے تھے۔ میں تب بہت جذباتی تھی اور اپنے والد کے لیے رویا کرتی تھی۔ لیکن اب کا سفر ایک مقصد کے لیے ہے جو مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہے۔ کبھی بھی وطن واپس جانا یا نہ جانا، مقدموں کا سامنا کرنا یا نہیں کرنا اور سزا کے لیے خود کو سرنڈر کرنا ہے یا نہیں کرنا، یہ مشکل فیصلے نہیں تھے۔ کیونکہ میاں صاحب یا میرے دماغ میں اس پر کوئی دو رائے نہیں تھی کیونکہ ان کا فیصلہ تھا کہ یہ کرنا ہے۔ لیکن اپنی ماں، کلثوم نواز، کو اس حالت میں چھوڑ کر آنا سب سے مشکل فیصلہ تھا۔ میری زندگی میں اس لحاظ سے یہ سب سے مشکل فیصلہ تھا۔

صحافی عاصمہ شیرازی نے سوال کیا کہ آپ کو گھر میں سب 'گڑیا' کہتے تھے تو کیا گھر کی گڑیا اتنی مضبوط ہو گئی کہ وہ سزا کا، نامساعد حالات کا مقابلہ کر لے گی؟ اس پر مریم نواز کا کہنا تھا کہ ہمیں امی سے ملنے کے لیے نیب کورٹ سے 4 دن کا حاضری سے استثنیٰ ملا تھا۔ ابھی جو فیصلہ آیا اس کے آنے کا تب تک کوئی امکان بھی نہیں تھا۔ رات کو امی سے بات ہوئی تو انہوں نے ہمیں کہا کہ وہ ہماری منتظر ہیں۔ میں نے اور والد صاحب نے دوحہ سے لندن کے لیے فلائٹ لی۔ ہم ایک ایک گھڑی گن گن کر گزار رہے تھے کہ بالآخر ان سے ملاقات ہو گی کیونکہ کئی ہفتے اور مہینے گزر چکے تھے۔ اس دوران ان کی کیمو اور ریڈیو تھراپیز ہوئیں۔ ان کی طبیعت بھی بہتر نہیں تھی لیکن ہم نہیں مل سکے کیونکہ عدالت سے اجازت نہیں ملی۔ ہر بار استدعا مسترد ہو گئی۔ اس بار مل گئی اور عید کی چھٹیاں بھی تھیں۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

ہم اس امید اور انتظار میں آ رہے تھے کہ والدہ سے ملاقات ہو گی۔ جب دوحہ سے لندن کے لیے فلائیٹ روانہ ہوئی تو اس دوران امی کو دل کا دورہ پڑا جس کے بارے میں ہمیں نہیں بتایا گیا۔ جب ہیتھرو ایئرپورٹ پہنچے تو بھائی، حسن نواز، کا فون آیا کہ گھر نہیں سیدھا ہسپتال آئیں، امی ہسپتال میں ہیں۔ جب پوچھا کہ کیا ہوا طبیعت کو تو انہوں نے کہا کہ بلڈ پریشر ڈراپ کر گیا تھا۔ جب ہم ہسپتال پہنچے تو پتا چلا کہ انہیں دل کے 2 دورے پڑے جو جان لیوا تو ثابت نہیں ہوئے تاہم وہ بے ہوش ہو گئی ہیں اور وینٹی لیٹر پر ہیں۔ ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے۔

مریم نواز نے کہا کہ وہ بہت تکلیف دہ لمحہ تھا۔ اس کے بعد پورا مہینہ نہ انہوں نے آنکھیں کھولیں اور نہ ہی ہوش آیا۔ ہم انہیں روزانہ آوازیں دیتے تھے، اسی امید میں کہ وہ پاکستان جانے سے پہلے ایک بار ہمیں دیکھ لیں لیکن وہ بے ہوش رہیں۔ اسی اثنا میں فیصلہ بھی آ گیا۔ کل جب ہم نے واپس آنا تھا تو انہوں نے آنکھیں کھولیں اور ان کی آنکھوں سے دو آنسو نکلے۔ تو میں نے انہیں کہا کہ امی دیکھیں میں آپ کی وہی گڑیا ہوں جس کے بارے میں آپ کہتی تھیں کہ تمہارے آنسو پلکوں پر ہی رہتے ہیں۔ تمہارا دل چھوٹا ہے اور ہر بات پر رو دیتی ہو۔ اماں میں وہی مریم ہوں اور میں بہادر ہو گئی ہوں۔ اب مجھے رونا نہیں آتا، اس لیے اب آپ نے بھی نہیں رونا۔ مجھے نہیں پتہ کہ انہوں نے میری آواز سنی یا نہیں۔

جب فیصلہ آیا تو میرے والد صاحب نے کہا کہ میں واپس جاؤں گا، تم واپس نہ جاؤ۔ تو میں نے انہیں کہا کہ آپ یہ والد بن کر سوچ رہے ہیں، آپ کو نواز شریف بن کر سوچنا چاہیے۔ میں نہیں چاہتی کہ کبھی کوئی آپ پر یہ انگلی اٹھائے کہ آپ خود آ گئے تھے اور بیٹی چونکہ آپ کی کمزوری ہے اس لیے اس کو چھوڑ آئے۔ بیٹی کو اس مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتے تھے۔ یہ جنگ میں نے اور آپ نے ایک ساتھ لڑی ہے۔ اس کے لیے میں نے نقصان اٹھایا، بہت کچھ سہا بھی۔ اب چونکہ فیصلہ کن مرحلہ ہے تو میں پیچھے نہیں ہٹ سکتی۔ یہ گڑیا سے مریم تک کا سفر تھا۔

صحافی نے سوال کیا کہ اگر اس سے تھوڑا پیچھے چلے جائیں جب آپ وزیر اعظم ہاؤس میں تھیں اور ن لیگ کے کئی سینیئر لوگوں نے کہا کہ پارٹی کو نقصان مریم کی وجہ سے ہو رہا ہے، تو مریم کو اس تنقید اور محلاتی سازشوں نے مضبوط بنایا یا والد آپ کے رہنما تھے جن کی وجہ سے آپ مضبوط ہوئیں؟ وہ محلاتی سازشیں کیا تھیں؟ میاں صاحب کہتے تھے کہ مجھے کیوں نکالا؟ عوام کو بتانا چاہتے تھے لیکن بتا نہیں سکے۔ اس پر مریم نواز کا کہنا تھا کہ اس وقت نئی مریم کو مضبوط بنانے میں تھوڑا تھوڑا سب کا کردار موجود ہے۔ لیکن میرے خیال میں زیادہ اثر ان 4 سالوں کا ہے جو میں نے میاں صاحب کے ساتھ وزیر اعظم ہاؤس میں گزارے۔ میں بہت ہی شائستہ اور نرم و نازک سی مریم تھی۔ پھر میں نے دیکھنا شروع کیا کہ ایک منتخب وزیر اعظم جو عوام کے نمائندے ہوتے ہیں، ان کے ساتھ کیسا سلوک ہوتا ہے۔ غور کرنا، سمجھںا شروع کیا تو مجھے پتہ چلا کہ یہ کتنا غلط ہے۔ خاص طور پر جب ' ریجیکٹڈ' کی ٹویٹ آ گئی۔ مجھے احساس ہوا کہ ہر کسی کی طرف سے نشانہ بنائے جانے کے لیے وزیر اعظم سب سے آسان آسامی ہے۔ پنچنگ بیگ ہے، جو الزام آپ کسی پر نہیں لگا سکتے وزیراعظم پر لگا دو۔ عوام قطاروں میں کھڑے ہو کر ایک نمائندے کو ووٹ دیتے ہیں، منتخب نمائندے کو ملک کی باگ ڈور دی جاتی ہے لیکن اس کے علاوہ باقی سب ملک چلاتے ہیں۔ ہر موقع پر اس کی تذلیل اور تضحیک کی جائے اور اس سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ جواب میں کچھ نہ بولے کیونکہ اگر وہ بولے گا تو وہ غدار ہے۔

مریم نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ مجھے یاد ہے کہ ' ریجیکٹڈ' کی ٹویٹ کے بعد میاں صاحب نے کہا تھا کہ مجھے ایسا لگا جیسے کسی نے میرے منہ پر تھپڑ مارا ہے۔ کیونکہ یہ نواز شریف کی نہیں، عوام کے منتخب کردہ نمائندے، وزیر اعظم اور پی ایم آفس کی توہین ہوئی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں نے دیکھا کہ کس طرح عہدوں میں توسیع کے لیے میاں صاحب پر دباؤ ڈالا گیا۔ کس طرح ڈان لیکس ہوئی اور اس میں پرویز رشید اور طارق فاطمی کو قربانی کا بکرا بنایا گیا۔ کس طرح ایک جھوٹی کہانی گھڑی گئی۔ کس طرح اس من گھڑت کہانی کو گھڑنے والوں نے پورا الزام الیکٹڈ وزیر اعظم اور حکومت پر ڈال دیا۔

عاصمہ شیرازی نے سوال کیا کہ آپ کا نام ڈان لیکس میں کیسے آیا؟ آپ کا کیا رول تھا؟ کیا آپ وہاں تھیں؟ اس پر مریم نواز نے کہا کہ پوری دنیا جانتی ہے کہ نیشنل سکیورٹی کونسل کے اجلاس میں کوئی غیر متعلقہ شخص بیٹھ بھی نہیں سکتا۔ میرے پاس پارٹی یا حکومت کا کوئی عہدہ نہیں تھا اور نا ہی میں نیشنل سکیورٹی کونسل کی ممبر تھی۔ میں اس اجلاس میں تھی ہی نہیں تو مجھے کیسے علم ہو گا کہ اس اجلاس میں کیا ہوا تھا۔

مریم نواز نے کہا کہ جس دن اخبار میں ڈان لیکس کے حوالے سے سرل المیڈا کا کالم چھپا تو مجھے اس کالم سے پتہ چلا کہ کیا ہوا ہے۔ میں وہ کالم میاں صاحب کے پاس لے گئی اور پوچھا کہ آپ نے دیکھا ہے تو انہوں نے کہا کہ ہاں میں نے دیکھا ہے۔ جب میں نے پوچھا کہ کیا یہ سب ہوا تھا تو وہ خاموش رہے۔ ریاستی امور کی باتیں انہوں نے کبھی گھر آ کر نہیں کی تھیں۔ اب تو وہ ہر بات کر لیتے ہیں لیکن تب نہیں کرتے تھے۔ وہ ایک ذمہ دار وزیر اعظم تھے اور انہیں علم تھا کہ جو حساس معاملات اور تفصیلات ہیں، وہ گھر والوں سے بھی شیئر نہیں کرنی۔ میرا تو ڈان لیکس سے دور دور تک کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ ڈان لیکس کوئی لیکس نہیں تھیں، پانامہ کی طرح کی خودساختہ کہانی تھی جس کا مقصد وزیر اعظم پر توسیع کے لیے پریشر ڈالنا تھا۔ تو جنہوں نے ڈان لیکس بنائی انہوں نے سوچا کہ جو بھی کسی غیر آئینی کام کرنے سے روکنے میں رکاوٹ بن رہا ہے اس کو عبرت کا نشان بنا دیا جائے۔

جب پوچھا گیا کہ جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کے دوران جب وزیر اعظم پر پریشر تھا تو آپ کو ٹارگٹ بنا کر ان پر پریشر ڈالا گیا یا ان کو ٹارگٹ بنایا گیا؟ اس کے جواب میں مریم نے کہا کہ دونوں ہی ٹارگٹ تھے۔ میں تو شاید اس لیے ٹارگٹ بنی کیونکہ میں نے میاں صاحب کو اکیلے نہیں چھوڑا۔ ان کو ایک ایسا ساتھی مل گیا جس نے انہیں کہا کہ آپ ٹھیک ہیں اور اگر کمپرومائز نہیں کیا تو بہت اچھا کیا۔ آپ خود یا آپ کی فیملی نقصان اٹھا لے لیکن ایسا کوئی غلط کام نہیں کرنا جس سے آئین میں غلط مثال بنے۔ تب میں میاں صاحب کے لیے ان کا سوشل میڈیا ہینڈل کرتی تھی اور وزیر اعظم پر ذاتی حملوں کا جواب دیتی تھی۔ میں نے ہمیشہ ان کا دفاع کیا ہے لیکن کبھی کسی پر ذاتی حملہ نہیں کیا۔ تو مخالفین کو لگا شاید میں ان کے لیے رکاوٹ ہوں اور جو چیزیں آرام سے چل سکتی تھیں میری وجہ سے نہیں ہو رہیں۔

دھرنے اور اس میں ملوث لوگوں کے خلاف انکوائری کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں مریم نواز نے کہا کہ میاں صاحب نے عوام کو سب بتا دیا تھا۔ جب بھی میں نے کہا کہ انکوائری ہونی چاہیے تھی اور ملزم کو سزا ملنی چاہیے تھی تو مخالفین کی جانب سے مجھ پر ذاتی حملے کیے جاتے ہیں۔

اگر کوئی وزیراعظم یہ کہہ دے کہ یہ قدم غیر قانونی یا غیر آئینی ہے تو اس کو گھٹنوں پر لے آتے ہیں۔ اس سے بڑا غدار کوئی نہیں ہوتا۔ اس پر مذہب کے فتوے لگ جاتے ہیں۔ اس سے بڑا کرپٹ کوئی نہیں ہوتا۔ ہر الیکٹڈ وزیر اعظم کے ساتھ یہی ہوتا ہے کہ غدار بنا دو، مذہبی فتوے لگا دو، انڈیا کا دوست بنا دو اور کرپٹ بنا دو۔

پانامہ اور جے آئی ٹی کے حوالے سے کیے گئے سوال کے جواب میں مریم نے کہا کہ جب ڈان لیکس کا کوئی اثر نہیں ہوا تو پانامہ لیکس کو ہوا دی گئی۔ میں یہ نہیں کہتی کہ پانامہ لیکس میں کسی کی سازش تھی۔ اس میں ایسا کچھ نہیں لکھا گیا تھا کہ یہ بدعنوانی یا کرپشن کی گئی ہے۔ لیکن اس کو جس طرح استعمال کیا گیا وہ غلط تھا۔ پاکستان میں عدالتیں آزاد نہیں ہیں۔ انہیں جس مسئلے کو اٹھانے کی ہدایت ملتی ہے وہ اٹھا لیتی ہیں اور جب کہا جاتا ہے کہ لٹکا دو تو لٹکا دیتی ہیں۔ چند منصف حضرات ایسے بھی ہیں جو اشاروں پر چلتے ہیں۔ انہیں جو اشارہ ہوا، انہوں نے کیا۔ حقائق دیکھے بغیر فیصلے آئے۔ اگر مجھ پر لگائے الزامات سچے تھے تو سپریم کورٹ کے پہلے فیصلے میں میرا کہیں ذکر ہی نہیں تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ تحقیقات کے لیے جو جے آئی ٹی بنائی گئی، بجائے اس کے کہ شفاف اور قانونی طریقے سے جے آئی ٹی کے ممبران کا انتخاب ہوتا، انہوں نے اپنے من پسند افسران کو واٹس ایپ کالز کیں۔ جن کو انہوں نے سمجھا رکھا تھا اور انہیں یقین تھا کہ وہ کبھی بھی حکم عدولی نہیں کریں گے۔ ایس ای سی پی، سٹیٹ بینک سمیت دیگر اداروں کو واٹس ایپ کالز کی گئیں کہ جو نام آپ کو دے رہے ہیں وہ نام اپنے ناموں کی فہرست میں ڈال کر بھیجیں۔ مطلب سب کچھ پہلے سے طے تھا۔ آپ کے سامنے تو 5، 6 متنازعہ نام آئے جس کے بعد جے آئی ٹی بدنام ہوئی، اس کے علاوہ 40 لوگ تھے۔ یہ واجد ضیاء صاحب نیب کورٹ میں خود کہہ کر گئے تھے کہ 40 اور بھی لوگ ہیں لیکن وہ کون ہیں کوئی نہیں جانتا۔ وہ سب خلائی مخلوق تھے۔

مریم نواز نے کہا کہ ٹریپ سیٹ کیا ہوا تھا۔ پانامہ یا ڈان لیکس نہ ہوتیں تو کوئی تیسری چیز ہوتی۔ جب آپ نے کسی سیاست دان کو پھنسانا ہوتا ہے تو خواہ وہ 62 ون ایف ہو، 58 ٹو بی ہو، پانامہ یا ڈان لیکس ہو، سنگین غداری ہو، بس بہانے بدلتے رہتے ہیں۔ مقصد ایک ہی ہوتا ہے۔

مسلم لیگ ن نے بہت بڑی قیمتیں ادا کر کے سبق سیکھے ہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ ایک بار جو سبق سیکھ لیے تو وہ غلطیاں دوبارہ نہیں کیں۔

شریف خاندان میں رنجشوں کے حوالے سے سوال پر مریم نواز کا کہنا تھا کہ پانامہ کے بعد جب نواز شریف کو نااہل قرار دیا گیا اس کے بعد سے کوشش بھرپور کی گئی کہ اس بات کو تقویت دی جا سکے کہ شاید فیملی میں اختلافات ہیں اور پارٹی میں دو گروپس بن گئے ہیں۔ ہماری فیملی میں بلکہ پارٹی میں بھی ایسا کچھ نہیں ہے۔ جب میاں صاحب نااہل ہوئے تو میاں صاحب، پارٹی اور میرا سب کا انتخاب شہباز شریف ہی تھے اور انہوں نے اپنی 30 سال کی محنت سے یہ عہدہ کمایا ہے۔ ایسا ہرگز نہیں تھا کہ نواز شریف کے بھائی ہونے کی حیثیت سے انہیں یہ عہدہ ملا۔ انہوں نے ن لیگ اور پورے پنجاب کے لیے بہت کام کیا ہے۔ وہ اس عہدے کے مستحق تھے۔