آئین کوئی صحیفہ نہیں؟

آئین کوئی صحیفہ نہیں؟
گذشتہ روز اسلام آباد نیشنل پریس کلب میں ''پارلیمنٹ، آئین اور جمہوریت کا مستقبل" کے زیر عنوان ایک مکالمہ سے خطاب میں وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا کہ آئین کوٸی صحیفہ نہیں ایک دستاویز ہے۔ 30 سال قبل ایک فوجی آمر جنرل ضیا نے کہا تھا آئین کوئی آسمانی صحیفہ نہیں ہے، کاغذ کے چند ٹکڑوں کا پلنده ہے جسے پھاڑ کر پھینک سکتا ہوں۔

شہزاد اکبر سلیکٹڈ وزیر اعظم کے معاون برائے احتساب ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ منظور پشتین جب آئین کے تحت حقوق کیلیے آواز بلند کرتے ہیں تو اسے غدار اور غیر ملکی ایجنٹ کہا جاتا ہے۔ سلیکٹڈ حکومت کا ایک چھوٹا سا پرزه آئین کی حرمت ماننے سے اعلانیہ انکار کرتے ہیں تو آئین سے وفاداری کا حلف اٹھانے والوں کے ماتھے پر شکن تک نہیں آتی۔

شہزاد اکبر کا بیانیہ سونامی سرکار کے احتساب کا ڈھونگ بھی بے نقاب کرتا ہے، جو آئین کے تحت ریاست کے شہریوں کے عزت و نفس کے تحفظ کی ضمانت کی دھجیاں بکھیر رہا ہے۔ شہزاد اکبر غالباً انگریزی ناول دی اینیمل فارم ہاؤس جیسے ماحول کے گرویدہ ہیں ورنہ آئین ریاست کے شہریوں کو مہذب اور باشعور بنانے کیلیے ذریعہ روشنائی ہوتا ہے۔

1973 کے آئین کی یہ ہی تو فضیلت ہے کہ فوجی آمروں کی طرف سے آئین شکنی کے باوجود ملک کی جغرافیائی حدود سلامت ہیں اور یہی آئین وفاق کی اکائیوں میں مضبوط بندھن ہے۔ جی ہاں! محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کل بھی چاروں صوبوں کی زنجیر تھیں اور آج ان کا مزار چاروں صوبوں کے درمیاں زنجیر ہے۔ کوئی کیسے بھول سکتا ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے زندگی بھر 1973 کے آئین کی بحالی کیلیے جدوجہد کی تھی۔

صدر آصف علی زرداری نے آئین کو بحال کر کے محترمہ شہید کے مشن کی تکمیل کر دی تھی۔ صدر آصف زرداری اس جرم کی سزا بھگت کر بستر علالت پر پہنچ گئے ہیں۔ رہی بات آئین کی، تو یہ ریاست کے تمام ستونوں کی مضبوط بنیاد ہے، کاش ملک کی عدالت عظمیٰ شہزاد اکبر کو کٹہرے میں لا کر ان سے جواب طلب کرے۔