بھارت کا حوالہ پاکستانی سیاست میں شاید قیام پاکستان کے پہلے عشرے سے ہی شامل ہے۔ ہر سیاستدان نے اپنی ضرورت اور اس وقت کے سیاسی ماحول کے مطابق بھارت کا مصالحہ اپنے اقتدار کی کڑاہی میں ضرور ڈالا ہے۔ مقتدر اداروں کی دین ہے کہ پاکستان کا ریاستی بیانیہ بھی بھارت مخالفت کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔
یہی وجہ ہے کہ بھٹو سے لے کر نواز شریف اور پھر مشرف تک سب نے اپنے اپنے طور پر بھارت کو تختہ مشق بنائے رکھا وہ علیحدہ بات ہے کہ کچھ نے بھارتی مصالحہ تیز اور کچھ نے ہلکا رکھا۔ البتہ یہ بات بھی اس موقع پر ہونا بر محل ہے کہ 1997 1999 کے نواز دور میں ہونے والی نواز واجپائی ملاقات اور پھر مشرف دور میں ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے دوران بھارت مخالف بیانیہ کا استعمال سیاست میں کم سے کم رہا۔ حتی' کہ پیپلز پارٹی کی حکومت میں بھی صورتحال کو مینج کیئے رہی جب کہ نواز شریف نے تو بھارتی صحافی برکھا دت کو یہ بھی کہہ دیا تھا کہ انکا مینڈیٹ ہی بھارت مخالفت سے کے خلاف ہے۔ لیکن موجودہ وزیر اعظم جناب عمران خان نے جتنا بھارت کو اپنے سیاسی مخالفین کو ملک مخالف یا غدار دکھا کر اور اپنے محب وطن ہونے کا بیانیہ گھڑنے اور اسے بیچنے کے لئے استعمال کیا ہے شاید ہی کسی نے کیا ہو۔
اس وقت مقتدر قوتوں نے بھی یہ ماحول بنانے میں کبھی جماعت دعوتہ برانڈڈ ملی مسلم لیگ بنائی تو کبھی تحریک لبیک کا مذہبی قومی کارڈ لانچ کیا گیا۔ مختصر یہ کہ بھارت کی مخالفت کو پاکستان کی سیاست۔کے بنیادی بیانیئے میں واپس لانچ کر دیا گیا۔
بھارت مخالفت پر کھڑی قوم پرستی کی انگیٹھی کو حسب اشارہ ہوا دینے کے ماہر استاد شیخ رشید کی صحبت میں جناب عمران خان نے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف سے اچانک بھارتی وزیر اعظم کی جاتی امرا میں ملاقات سے ممبئی حملوں کے بارے بیان سمیت ہر معاملے پر حکومت کے بھارت سے ملے ہونے پر نعرہ بازی کی۔ بھارت کے ساتھ شریف فیملی کے کاروباری مفادات پر مبنی کچھ کہانیاں خود سے ایسی گھڑ لیں کہ جن کا کوئی آج ثبوت ہے نہ ہی کوئی گواہ البتہ بیانئے کے بازار میں خوب بکری ہوئی۔ ان سب میں سب سے زیادہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو کا معاملہ تھا جس کو لے کر یہ کہا گیا کہ سابقہ حکومت مودی کی یار ہے اس لیئے غدار ہے اور وہ یادیو کے معاملے پر نرمی برت رہی ہے۔
لیکن شومئی قسمت کہ خان صاحب کی حکومت آگئی اور کلبوشن جادیو کا تحفہ انکے گلے آٹکا۔ جو اب گلے کو ایسا لگا ہے کہ کھانس کھانس کر حکومت کا نحیف ڈھانچہ مزید ہلکان ہو رہا ہے لیکن یہ ہے کہ جان چھوڑنے کو تیار نہیں۔
اور ہر نیا دن یہ ظاہر کر رہا ہے کہ کلبھوشن کو لے کر تحریک انصاف کی حکومت پر اسرار طور پر کسی بڑے دباؤ کا شکار ہے جو بطور ریاست پاکستان کو جھکائے ہوئے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت روز کلبھوشن کو راستہ دینے کے لئے نئی نئی قانون سازیاں کر رہی ہے ہر طرح سے بھارتی جاسوس کو خوش رکھنا چاہ رہی ہے۔
یاد رہے کہ یہ اسی رہنما اور اسی پارٹی کی حکومت ہے جو سابقہ حکومت کو مودی کا یار کہتی ان پر غداری کا ٹھپہ لگاتی نہ تھکتی تھی۔
اسی حوالے سے حامد میر نے اپنے تازہ ترین کالم میں انکشافات کیئے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ اسلام آباد کی سازشی فضا میں یہ سرگوشیاں سنائی دے رہی ہیں کہ کلبھوشن یادیو کے معاملے پر موجودہ حکومت کو کسی پُراسرار دبائو کا سامنا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ چین کے ہاتھوں لداخ میں بھارت کی ٹھکائی کے بعد پاکستان کلبھوشن یادیو کے معاملے پر جارحانہ رویہ اختیار کرتا۔
پاکستان نے نہ صرف کلبھوشن کو اس کے خاندان سے ملاقات کی اجازت دی بلکہ بار بار قونصلر رسائی بھی دی لیکن اس کے جواب میں بھارت کی طرف سے مسلسل ایک ہی دھمکی دہرائی جاتی رہی کہ آزاد کشمیر پر قبضہ کرلیا جائے گا۔ 13جولائی کو یومِ شہدائے کشمیر منایا جاتا ہے لیکن پاکستان نے 13جولائی کو افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے لئے واہگہ بارڈر کھولنے کا اعلان کیا اور ساتھ ہی ساتھ کلبھوشن کو تیسری مرتبہ قونصلر رسائی دینے کا اعلان کیا۔ کیا بھارت کی طرف سے پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کےلئے تہاڑ جیل میں قید کشمیری رہنماؤں کے لئے کسی سہولت کا اعلان کیا گیا؟
وہ کہتے ہیں کہ کلبھوشن یادیو کے بارے میں صدارتی آرڈیننس مئی 2020ء میں جاری کیا گیا اور قانون کے مطابق اس آرڈیننس کو جون 2020میں شروع ہونے والے بجٹ اجلاس میں پیش کرنا ضروری تھا لیکن حکومت نے اس آرڈیننس پر ایک پُراسرار خاموشی کیوں اختیار کی؟
ونگ کمانڈر ابھی نندن کی رہائی سے لے کر کلبھوشن یادیو کے لئے جاری ہونے والے صدارتی آرڈیننس تک پاکستان کی پالیسی کو اگر معذرت خواہانہ کہنا اچھا نہ لگے تو اسے اعتدال پسندانہ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ یہ کسی ایٹمی طاقت کی پالیسی نہیں ہے۔ کلبھوشن کے معاملے پر فروغ نسیم کے موقف کو آنکھیں بند کرکے تسلیم کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ کئی ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ بھارتی جاسوس کے پاس فوجی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق پہلے سے موجود ہے۔ اس معاملے پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر جناب اکرم شیخ کا موقف بڑا اہم ہے۔ اکرم شیخ کہتے ہیں کہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کی غلط تشریح کی جارہی ہے اور نہ ہی پاکستان اس فیصلے پر عملدرآمد کا پابند ہے۔
اب حامد میر نے جن سوالات کا حوالہ دیا ہے یہ بلاول بھٹو پہلے اٹھا چکے ہیں۔ یقیناً قوم اس حوالہ سے حق بجانب ہے کہ یہ پوچھا جائے کہ وہ کلبھوشن یادیو جس کو میڈیا پر پیش کرنا اتنا ضروری تھا کہ ایرانی صدر حسن روحانی کے پاکستان دورے کے موقع پر اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات کے دوران اسے ایران سے آنے والے دہشت گرد کے ٹیگ کے ساتھ پیش کیا گیا اور اس حوالے سے ایک لمحے کی بھی دیری نہ کی گئی کہ کہیں شبھ موہرت نکلا نہ جائے، اب اسکے لئے پاکستان کی انتظامیہ کے دل اتنے پسیج کیوں گئے کہ بھارتی جاسوس کے منتطقی انجام تک پہنچنے کے راستے طویل سے طویل کیے جا رہے ہیں؟