تحریک انصاف کے ترکش کا سب سے کاری تیر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے لیے ہے۔ ان کے خلاف ٹویٹر پر مخالفانہ میمز اور سوشل میڈیا تبصروں کا سیلاب آئے روز دکھائی دیتا ہے۔ یہ ایک انتہائی غیر معمولی صورت حال ہے۔
وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب نے پاکستان ٹیلی وژن کارپوریشن اورایک میڈیا گروپ، اے آر وائی ٹی وی کنسورشیم کے درمیان کئی ملین ڈالر کے کنٹریکٹ کا کھوج لگایا ہے۔
یہ معاہدہ تحریک انصاف کے دور حکومت میں ہوا تھا۔ اس پر دستخط کرنے والے تمام افراد کے خلاف ایف آئی اے میں بدعنوانی کے مقدمے کا اندراج کر لیا گیا ہے۔ بھرپور تیاری سے کی جانے والی ایک زبردست پریس کانفرنس میں مریم اورنگزیب نے دستاویزات کے مدد سے بہت مہارت سے مرحلہ وار وضاحت کی کہ کس طرح انٹرنیشنل اور پی ایس ایل کرکٹ نشریات کے حقوق اے آر وائی کنسورشیم کو دیے گئے۔
یہ میڈیا گروپ 2018 کے انتخابات سے پہلے اور بعد میں تحریک انصاف کا سب سے بڑا حامی رہا تھا۔ مریم اورنگ زیب نے سابق وزیراعظم عمران خان پر الزام لگایا کہ وہی خدمت کے بدلے فیاضی کے ذمہ دار ہیں جس نے پی ٹی وی کو دیوالیہ پن کے دہانے تک پہنچا دیا تھا۔
ہر حوالے سے یہ ایک بہت واضح، طے شدہ معاملہ ہے۔ درحقیقت یہ ڈیل تحریک انصاف کے دور حکومت میں طے پائی تھی۔ سب سے بھاری بولی لگانے والے گروپ، بلٹز(Blitz)، جسے غیر منصفانہ طور پر مسترد کردیا گیا، نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی۔
وہاں یہ کیس کئی ماہ تک التوا میں رہا، حالاںکہ مشکوک معاہدے پر میڈیا میں تنقیدی تبصرے ہو رہے تھے۔ تاہم تحریک انصاف اس کا دفاع کرنے پر تلی ہوئی تھی۔ اب پی ڈی ایم حکومت نے وکلا کو تبدیل کرکے اس معاہدے کوکٹہرے میں لانے کی کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔ اگرچہ قواعد وضوابط سے کھلا انحراف پی ٹی وی سپورٹس کے معاملات میں دکھائی دیا لیکن پی ٹی وی کے چیئرمین، منیجنگ ڈائریکٹر اور بورڈ آف ڈائریکٹرز کو دانستہ چشم پوشی سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ امید کی جانی چاہیے کہ کوئی بھی سخت احتساب سے نہیں بچ پائے گا اور سزا محض تبادلے اور معطلی تک محدود نہیں رہے گی۔
گذشتہ دو ماہ سے پی ڈی ایم کی طرف سے آنے والی صرف یہی اچھی خبر نہیں ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ بھی کم وبیش ہوچکا، صرف دستخط کی رسمی کارروائی باقی ہے۔ اس پیش رفت کی وجہ سے ڈالر کے مقابلے میں روپیہ دوبارہ مقابل احترام توازن حاصل کر رہا ہے۔ کئی ایک عطیہ دہندگان اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے غیر ملکی ذخائر میں اضافہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔
وزیر خزانہ، مفتاح اسماعیل نے تاک کر نشانہ لگاتے ہوئے ایک مرتبہ کے لیے انتہائی دولت مند شعبے پر دس فیصد سپر ٹیکس بھی عائد کر دیا ہے تاکہ غربت میں کمی لانے والے شعبے کی معاونت کی جا سکے۔ پرچون فروش اور تجارتی برادری تاریخی طور پر مسلم لیگ ن کی حامی رہی ہے۔ اسے قائل کرنے کے بعد اب پیشہ ور طبقے، ڈاکٹروں، وکلا اور ماہرین تعمیرات اورکنسلٹنٹ کی طرف بھی دیکھا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے تک ان ماہرین کو اپنی آمدنی اور اخراجات کی خود تشخیص کی اجازت دی گئی تھی، اور اس بابت ان سے کوئی سوال نہیں پوچھا جاتا تھا۔ غیر متوقع پھل کی طرح عالمی منڈی میں تیل کی قیمت کافی حد تک گرتی جارہی ہے۔ اس سے حکومت کو سکون کا کچھ سانس میسر آئے گا۔
لیکن آگے مشکل راستہ ہے۔ پاکستان معائع قدرتی گیس (ایل این جی) کی بھاری قیمت ادا کرنے پر مجبور ہے کیونکہ تحریک انصاف کی حکومت نے صورت حال کو بگاڑ دیاتھا۔ دوہرے ہندسے کی مہنگائی عوامی عدم اطمینان کا ذریعہ بنے رہنے کی پیش گوئی ہے جسے اگر منظم احتجاج میں تبدیل کیا جاسکا تو ہلچل مچا سکتی ہے۔ عمران خان پی ڈی ایم حکومت کو کمزور کرنے پر تلے ہوئے ہیں اوراسٹبلشمنٹ کے اندر بغاوت کو ہوا دے رہے ہیں۔ پنجاب اسمبلی کی بیس نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں پرتشدد جھڑپوں کا خدشہ موجود ہے۔ ان انتخابات کے نتائج پی ڈی ایم کی پنجاب حکومت کو مستحکم بھی کرسکتے ہیں اور منہدم بھی۔ عمران خان پہلے ہی اپنی توپوں کا رخ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف کرچکے ہیں۔ یاد رہے کہ الیکشن کمیشن تحریک انصاف کے خلاف ”ممنوعہ فنڈنگ“ کیس کا فیصلہ سنانے جارہا ہے، اور توقع ہے کہ یہ فیصلہ تحریک انصاف کے حق میں نہیں ہوگا۔ اُنھوں نے پی ڈی ایم حکومت کی طرف سے انتخابی قوانین میں کی گئی ترامیم کو بھی مسترد کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ضمنی انتخابات کے نتائج کو مسترد کردیں گے اگر ان کی مرضی کے مطابق نہ ہوئے۔ اب عمران خان نے جولائی کے اوائل میں اسلام آباد کے پریڈ گراؤنڈ میں احتجاجی جلسے کا اعلان کیا ہے جب کہ 30 جون کو ”مشکلات سے بھرپور بجٹ“ پاس ہو گا۔ اسلام آباد پہلے ہی تناؤ اور غیر یقینی کا شکار ہے۔
تحریک انصاف کے ترکش کا سب سے کاری تیر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے لیے ہے۔ ان کے خلاف ٹویٹر پر مخالفانہ میمز اور سوشل میڈیا تبصروں کا سیلاب آئے روز دکھائی دیتا ہے۔ یہ ایک انتہائی غیر معمولی صورت حال ہے۔ آرمی چیف کا نام لے کر تو ایک طرف، پاکستان کی فوج پر کبھی عوامی سطح پر اتنی تنقید نہیں کی گئی تھی۔ اتنی ہی غیر معمولی بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کے معاونین اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے والوں کے خلاف کوئی تعزیری کارروائی کرنے پر غور نہیں کیا جارہا۔ حالانکہ قومی سلامتی کے ذمہ دار اداروں کے خلاف ایسی منفی مہم پر ایک واضح قانون تحریک انصاف کی حکومت نے بہت عرصہ قبل منظور کیا تھا۔
درحقیقت، وزیرستان سے منتخب ایم این اے علی وزیر کو ڈیپ سٹیٹ کے خلاف بہت معمولی جرم کے باوجود ناانصافی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ دوسری طرف 2007 میں اپنے قیام سے لے کر اب تک تحریک طالبان نے پاکستان میں 3,280 دہشت گرد حملے کیے ہیں، جن میں 301 خودکش بم دھماکے اور حملے شامل ہیں جن میں 74,000 سے زیادہ جانیں ضائع ہوئیں۔ لیکن ان سے پرامن مذاکرات کیے جارہے ہیں۔
اس کے بجائے، جنرل باجوہ نے ایک تصویر کے ساتھ جواب دیا ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ وہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی طرف سے ایک اعلیٰ اعزاز حاصل کررہے ہیں۔ سعودی ولی عہد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جنرل باجوہ کے قائل کرنے پر پاکستان کی مالی امداد پر راضی ہو گئے ہیں۔
پنڈتوں نے پیش گوئی کی تھی کہ جولائی پی ڈی ایم کے لیے سب سے ظالم مہینہ ہو سکتا ہے۔ خدشہ موجود ہے کہ سخت بجٹ پاس ہونے کے بعد اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے دباؤ کے سامنے جھکتے ہوئے پی ڈی ایم کو پارلیمنٹ تحلیل کرنے اور نئے انتخابات کا حکم دے سکتی ہے۔ لیکن اب ایک زیادہ باوثوق دلیل یہ ہے کہ توازن تحریک انصاف کے خلاف جھک رہا ہے۔ اگر عمران خان جیت جاتے ہیں تو وہ اسٹیبلشمنٹ کی قیادت سے انتقام لیں گے جس نے انھیں عہدے سے ہٹانے کے لیے پی ڈی ایم کے ساتھ اتحاد کیا تھا۔ اگر وہ ہار جاتے ہیں، نتائج کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں اور عوامی تحریک اور عدم استحکام کی راہ پر گامزن رہتے ہیں تو نئے انتخابات کا انتخاب کیوں کریں؟ دلیل دی جاتی ہے کہ اس فرمانبردار حکومت کو اگلے سال تک اپنے عہدے پر رہنے دیا جانا ہی بہتر ہوگا۔ اس دوران عمران خان کو احتجاجی مظاہروں کے ذریعے دل کی بھڑاس نکالنے کی اجازت دے دی جائے۔
سترہ جولائی کو پنجاب میں بیس ضمنی انتخابات ہونے پر پتہ چل جائے گا کہ ہوا کس سمت چل رہی ہے۔ اگر پاکستان مسلم لیگ ن بھاری کامیابی حاصل کر لیتی ہے تو پی ڈی ایم کی حکومت کے لئے راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ لیکن اگر تحریک انصاف سیاسی معرکہ جیت گئی تو پھر عمران خان پہلے سے بھی زیادہ جارحانہ حریف بن کر ابھریں گے، اور اس کے بعد پھر کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
نجم سیٹھی پاکستان کے مانے ہوئے صحافی و تجزیہ کار ہیں۔ وہ انگریزی ہفت نامے دی فرائیڈے ٹائمز کے مدیر، وین گارڈ پبلیشرز سے چیف ایگزیکٹو ہیں اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔