فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل پر حکم امتناع کی استدعا مسترد

فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل پر حکم امتناع کی استدعا مسترد
سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کے خلاف حکم امتناع جاری کرنے کی استدعا مسترد کر دی۔ اٹارنی جنرل کی جانب سے یقین دہانی کروائی گئی کہ اس وقت کسی سویلین کا ٹرائل نہیں چل رہا۔ فوجی عدالتوں میں ابھی جو کارروائی چل رہی ہے وہ فوج کے اندر سے معاونت کے الزام کی ہے۔

سپریم کورٹ میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر  چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں چھ رکنی لارجر بینچ سماعت کر رہا ہے۔ بینچ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل ہے۔

شاہ خاور ایڈوکیٹ وزیر داخلہ کی جانب سے آج عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کی جانب سے یقین دہانی کرائے جانے کے بعد فوجی عدالتوںکی کارروائی روکنے کی استدعا مسترد کر دی اور سماعت جولائی کے دوسرے ہفتے تک ملتوی کر دی۔

سماعت سے قبل، صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں اٹارنی جنرل نے سویلینز کے ٹرائل شروع ہونے پر وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت کسی سویلین کا ٹرائل نہیں چل رہا۔

سماعت شروع ہوئی تو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد زبیری روسٹرم پر آئے اور کہا کہ ہم نے بھی اس معاملے پر درخواست دائر کی ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ کی درخواست کو نمبر لگ گیا ہے؟ انہوں نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں خوشی ہے کہ سپریم کورٹ بار کی جانب سے بھی درخواست آئی۔ اچھے دلائل کو ویلکم کیا جائے گا اور جب درخواست کو نمبر لگے گا تب دیکھ لیں گے۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل عزیر بھنڈاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میں وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔ میرے دلائل صرف سویلین کے ملٹری ٹرائل کے خلاف ہوں گے جبکہ فوجیوں کے خلاف ٹرائل کے معاملے سے میرا کوئی لینا دینا نہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کل پریس کانفرنس میں کہا کہ ٹرائل جاری ہے اور ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس اٹارنی جنرل کے بیان سے متضاد ہے۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میں آج بھی اپنے بیان پر قائم ہوں۔ ابھی تک کسی سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل شروع نہیں ہوا۔ قانون کے مطابق ٹرائل کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں گے۔ ابھی ملزمان سے تحقیقات جاری ہیں۔ یہ تحقیقات حتمی ہو بھی جائیں تب بھی ٹرائل میں وقت درکار ہوگا اور سمری ٹرائل نہیں کیا جائے گا اور اگر ٹرائل شروع ہو بھی گیا تو ملزمان کو وکلا کرنے کی مہلت دی جائے گی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں آپ کی بات پر یقین ہے۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ ہمیں اس بات پر کلیئر ہونے کی ضرورت ہے کہ ملزمان کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعہ 2 (ڈی) (ون) کے تحت تحویل میں لیا گیا یا 2 (ڈی)(2) کے تحت؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ابھی جو کارروائی چل رہی ہے وہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ (ٹو ڈی ون) کے تحت ہے۔ ابتدائی طور پر 2 (ڈی) (2) کے تحت ملزمان کو حراست میں لیا لیکن 2 (ڈی) (ون) کے نتائج بھی ہو سکتے ہیں۔ 2 ڈی ون کے تحت ان ملزمان کا ٹرائل ہوتا ہے جن کا کسی طرح فوج کے ساتھ تعلق ہو۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ ہمارے پاس دستیاب نہیں۔ ایکٹ کی عدم دستیابی کے باعث ہوا میں باتیں ہو رہی ہیں۔ 2 (ڈی) (2) کے تحت کون سے جرائم آتے ہیں اس پر معاونت کرنی ہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ عدالتی نظائر کی رو سے کیا معیار مقرر کیا گیا ہے کہ کس کو عام عدالت اور کس کو فوجی عدالت میں ٹرائی کرنا ہے؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لیاقت حسین کیس میں واضح کیا گیا ہے کہ ہر کیس ملٹری کورٹ میں ٹرائی نہیں ہو سکتا بلکہ کیس کا تعلق آرمی ایکٹ کے ساتھ ثابت ہونا چاہیے۔

عزیر بھنڈاری نے کہا کہ پارلیمنٹ بھی آئینی ترمیم کے بغیر سویلین کے ٹرائل کی اجازت نہیں دے سکتا۔ اکیسویں ترمیم میں یہ اصول طے کر لیا گیا ہے کہ سویلین کے ٹرائل کے لیے آئینی ترمیم درکار ہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ اگر اندرونی تعلق کا پہلو ہو تو کیا تب بھی سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہو سکتا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ اندرونی تعلق بارے جنگ کے خطرات دفاع پاکستان کو خطرہ جیسے اصول اکیسویں ترمیم کیس کے فیصلے میں طے شدہ ہیں۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ آئی ایس پی آر کی گزشتہ روز کی پریس کانفرنس کے بعد صورتحال بالکل واضح ہے۔ کیا اندرونی تعلق جوڑا جا رہا ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ابھی جو کارروائی چل رہی ہے وہ فوج کے اندر سے معاونت کے الزام کی ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ہم ماضی میں سویلین کے خلاف فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی مثالوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ ماضی کی ایسی مثالوں کے الگ حقائق، الگ وجوہات تھیں۔

عزیر بھنڈاری نے کہا کہ جو کچھ بھی ہو گا وہ آئینی ترمیم سے ہی ہو سکتا ہے۔

وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ اکیسویں آئینی ترمیم کا اکثریتی فیصلہ بھی یہی شرط عائد کرتا ہے کہ جنگی حالات ہوں تب ہوگا۔ آئین کا آرٹیکل 175 تھری جوڈیشل اسٹرکچر کی بات کرتا ہے۔ آئین کا آرٹیکل 9 اور 10 بنیادی حقوق کی بات کرتے ہیں اور یہ تمام آرٹیکل بھلے الگ الگ ہیں مگر آپس میں ان کا تعلق بنتا ہے۔

وکیل درخواست گزار نے کہا کہ بنیادی حقوق کا تقاضا ہے کہ آرٹیکل 175 تھری کے تحت تعینات جج ہی ٹرائل کنڈکٹ کرے۔سویلین کا کورٹ مارشل ٹرائل عدالتی نظام سے متعلق اچھا تاثر نہیں چھوڑتا اور کسی نے بھی خوشی کے ساتھ اس کی اجازت نہیں دی۔

جسٹس عائشہ ملک نے اسفتسار کیا کہ افراد کی حوالگی سے پہلے فیصلہ کون کرے گا کہ ان کو حوالہ کیا جانا ہے۔ وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ ملزمان کو فوجی عدالتوں میں حوالگی سے پہلے ہی فیئر ٹرائل سمیت تمام حقوق ملنے چاہیے۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ اگر ایمرجنسی نافذ نہیں اور تمام حقوق قائم ہیں تو آئین پر عمل ہی واحد آپشن ہے۔

وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ 175/3 بنیادی طور پر 9/10 آرٹیکل سے مطابقت رکھتا نہیں ہے۔ آرٹیکل 9-10 بنیدی حقوق کی بات کرتا ہے، فوجی اہلکاروں کو بنیادی حقوق فراہم کیے جائیں گے یا نہیں علیحدہ سوال ہے۔ سویلینز کو آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ میں صرف ایک جگہ 59/4 تمام افراد پر لاگو کرنے کا کہا گیا ہے۔

وکیل درخواست گزار نے کہا کہ ایف آئی آر میں بھی سیکریٹ ایکٹ کے نفاذ کا ذکر نہیں کیا گیا۔ آرمی ہاکی ٹیم سپورٹس میں ہے اگر وہاں کوئی بات ہوتی ہے تو اس کا مطلب آفیشل سیکریٹ نہیں ہوگا۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ ٹو ون ڈی صرف ان افراد پر لگے گا جن کے لیے ایکٹ بنایا گیا جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ایکٹ کو پورا پڑھا جائے تو یہ تب لاگو ہوتا ہے جب دشمن کو فائدہ دینے کے لیے کچھ کیا جائے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ افسران میں سب سے اہم چیز مورال ہوتی ہے، کوئی عمل جو آرمی افسر کا مورال کم کرے وہ دشمن کو فائدہ پہنچاتی ہے۔

جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ کیا آفیشل سیکریٹ کی سزا میں ضمانت ہوسکتی ہے؟

وکیل درخواست گزار عزیر بھنڈاری نے بتایا کہ جی آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی سزا میں ضمانت ہوسکتی ہے، ایف آئی آر میں تو آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا ذکر ہی نہیں ہے۔ ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے تحفظ پاکستان ایکٹ کو ضم کرکے انسداد دہشتگردی کی دفعات شامل کی گئیں۔ 2017 میں ترمیم کرکے 2 سال کی انسداد دہشتگردی کی دفعات کو شامل کیا گیا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ شواہد کے بغیر کیسے الزامات کو عائد کیا جاتا ہے؟ یہ معاملہ سمجھ سے بالاتر ہے اور سقم قانون میں ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ کیا الزام لگایا گیا یہ تفصیل موجود ہی نہیں۔ عزیر بھنڈاری نے کہا کہ آرمی افسران کی جانب سے ملزمان کی گرفتاری غیر قانونی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کسی شخص پر شواہد کے بغیر الزام لگانا بے کار ہے۔ اٹارنی جنرل ہم نے ایسی معلومات منگوائی ہیں جو تمام والدین کے لیے فائدہ مند ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ان مقدمات میں تو ملزمان پر الزام ہی نہیں تھا۔ ان مقدمات میں ملزمان پر پاکستان پینل کوڈ کے الزامات ہیں۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ یہ تو سمجھ آتی ہے کہ پہلے گرفتار کرتے ہیں پھر تحقیقات کرتے ہیں۔

وکیل چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ اس کیس میں بہت سے حقائق تسلیم شدہ ہیں اور تسلیم شدہ حقائق سے بدنیتی اخذ کی جا سکتی ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کا میڈیا پر مکمل بین ہے۔ اوپن پبلک ٹرائل ہونا چاہیے اور صحافیوں کو ٹرائل کی رپورٹنگ کی اجازت ہونی چاہیے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ملزم کی تعریف نہیں کی گئی۔ سپریم کورٹ نے 1975 کے فیصلے میں طے کیا کہ جوڈیشل سائیڈ پر طے ہوگا ملزم کون ہے۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل عزیر بھنڈاری کے دلائل مکمل ہوگئے جبکہ درخواستگزار زمان وردگ نے تحریری دلائل جمع کروا دیے۔

جسٹس یحییٰ  آفریدی نے اٹارنی جنرل کو ہدایات کی کہ آپ ہمیں مکمل حقائق دیں۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ میں نے تحریری معروضات سمیت تمام تفصیلات فراہم کر دی ہیں۔۔9 مئی کا واقعہ جس کے بعد ملزمان کی حوالگی کا عمل شروع ہوا اور ساری کارروائی کا بیشتر حصہ رولز میں موجود ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا حراست میں لینے کے عمل میں قانونی تقاضے پورے کیے گئے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ٹرائل کا طریقہ اور حقوق سے متعلق تفصیل بتاوں گا۔

اس موقع پر اٹارنی جنرل نے سفید فائل چیف جسٹس کے حوالے کر دی اور بتایا کہ 102 افراد کی مکمل تفصیل اس میں موجود ہے۔ اہلخانہ کی زیر حراست افراد سے ہفتہ کی بنیاد پر ملاقات ہوسکتی ہے اور والدین اہلخانہ ہفتے میں ایک بار متعلقہ افسر کو درخواست دیکر ملاقات کر سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں نے جیلوں کا دورہ کیا وہاں بھی ملزمان کو اہلخانہ سے بات کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ ہر ملزم کو بات کرنے کے لیے کچھ منٹس دیے جاتے ہیں اور آپ نے خود کہا کہ ملزمان پر ابھی الزامات نہیں لگائے۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ ملزمان پر چارج نہیں تو انہیں نامزد کیسے کیا گیا؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ملزمان کو خوراک کی فراہمی کا کوئی ایشو نہیں۔

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیوں خفیہ رکھا جارہا ہے کہ 102 کونسے ملزمان ہیں؟ کیا ملزمان کے نام پبلک کرنے میں کوئی مسئلہ ہے؟ فہرست دیکھ کر ہر کوئی اپنے افراد کا حراست میں ہونے یا نہ ہونے کا کہہ سکتا ہے۔ سادہ سوال ہے کیوں فہرست پبلک نہیں کی جا رہی؟

اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ میری درخواست ہے اس تفصیل کو خفیہ رکھا جائے۔ ہم 102 افراد کے اہلخانہ کو الگ الگ فون کرکے آگاہ کر دیں گے اور یہ عمل 24 گھنٹوں میں مکمل کرلیں گے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ فہرست پبلک ہوجائے گی تو تشویش ختم ہوجائے گی کہ کون گرفتار ہے جبکہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ مسئلہ یہ ہے کہ فہرست پبلک ہوگئی تو اہلخانہ کی تشنگی بڑھ جائے گی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ اچھی بات ہے کہ عید سے پہلے اہلخانہ کو اطلاع مل جائے۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ فہرست پبلک کرنے سے متعلق ایک گھنٹے میں آگاہ کروں گا البتہ صحت کی سہولیات دی جا رہی ہیں اور ڈاکٹر موجود ہیں۔ صحافیوں اور وکلاء سے متعلق کچھ واقعات ہوئے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وکلاء کو مکمل تحفظ ہونا چاہیے۔ عمران ریاض لاپتہ ہیں۔ کیا عمران ریاض آپ کی تحویل میں نہیں ہیں؟ عمران ریاض کو تلاش کریں اور بازیاب کریں۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ عمران ریاض ہماری تحویل میں نہیں ہے لیکن وفاقی حکومت عمران ریاض کی بازیابی کے لیے مکمل تعاون کر رہی ہے۔

سپریم کورٹ نے سماعت جولائی کے تیسرے ہفتے تک ملتوی کر دی۔