وزیراعظم شہباز شریف اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی مینیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیواکے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ہوا ہے۔ وزیراعظم کی جانب سے گزشتہ چند روز میں آئی ایم ایف کی مینیجنگ ڈائریکٹرسے چوتھی بار رابطہ ہوا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے معاشی صورتحال کی بہتری کے اہداف مشترکہ کوششوں سے حاصل کرنےکے عزم کا اعادہ کیا۔
وزیراعظم نے ایم ڈی آئی ایم ایف سے گفتگو کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ آئی ایم ایف پروگرام کے نکات پر ہم آہنگی آئندہ ایک دو روز میں آئی ایم ایف کے فیصلے کی شکل اختیار کرے گی۔
اس موقع پر آئی ایم ایف کی مینیجنگ ڈائریکٹر نے وزیراعظم شہباز شریف کے قائدانہ عزم کو سراہتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی معاشی صورتحال کی بہتری چاہتے ہیں۔
https://twitter.com/pmln_org/status/1673619254862651392?s=20
ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان نے 6 ارب ڈالرکی بیرونی فنانسنگ پر آئی ایم ایف سے نرمی کی درخواست کی ہے۔ نرمی کے عوض مزید ٹیکس لگانےکی شرط رکھی گئی ہے۔
گزشتہ دنوں وزیراعظم نے لندن میں ہونے والی ماحولیاتی کانفرنس میں آئی ایم ایف کی ایم ڈی سے ملاقات کی تھی جس کے بعد پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان جلد معاہدے کی خبریں سامنے آئی تھیں۔
اس حوالے سے ذرائع کا کہنا تھا کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان نویں جائزے اور پروگرام کی بحالی کی راہ میں رکاوٹیں دور ہوگئی ہیں۔
واضح رہے کہ 6.7 ارب ڈالر قرض پروگرام کی مدت 30 جون کو ختم ہو رہی ہے اس سے قبل پاکستان کو 2 قسطوں کی مد میں تقریباً 2.2 ارب ڈالر حاصل کرنا ہیں۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کو عالمی مالیاتی ادارے سے ساتویں اور آٹھویں مشترکہ جائزے کے بعد ایک ارب 16کروڑ ڈالر کی قسط یکم ستمبر 2022 کو موصول ہوئی تھی۔
آئی ایم ایف نے مالی سال 24-2023 کے بجٹ میں کیے گئے اقدامات پر سوالات اٹھائے تھے جبکہ ریٹنگ ایجنسیوں نے خبردار کیا تھا کہ پاکستان کے پاس آئی ایم ایف بیل آؤٹ پیکیج پر قائل کرنے کے لیے وقت ختم ہورہا ہے۔
آئی ایم ایف کے مطالبات کے مطابق بجٹ پر نظر ثانی کرنے کے بعد حکومت کو اشد ضروری بیل آؤٹ فنڈز حاصل کرنے کے لیے آئندہ چند روز میں عالمی قرض دہندہ ادارے کی جانب سے منظوری کے اعلان کی توقع ہے۔
15 جون کو آئی ایم ایف نے آئندہ مالی سال 2023-24 کے بجٹ پر عدم اطمینان کا اظہار اور پیٹرولیم مصنوعات پر لیوی بڑھانے کا مطالبہ کر دیا۔ آئی ایم ایف کے نمائندے نے کہا کہ بجٹ کے مسودے نے ٹیکس کی بنیاد وسیع کرنے کا موقع گنوا دیا۔
پاکستان میں آئی ایم ایف کی نمائندہ ایسترپیریزروئز نے کہ بجٹ منظوری سے قبل اسے بہتر بنانے کیلئے حکومت سے مل کر کام کرنے کو تیار ہیں۔
آئی ایم ایف کی نمائندہ نے کہا کہ نئے ٹیکس اخراجات کی طویل فہرست ٹیکس کے نظام کی شفافیت کو مزید کم کرتی ہے۔ بجٹ کے مسودے نے ٹیکس کی بنیاد وسیع کرنے کا موقع گنوا دیا۔ آئی ایم ایف عملہ استحکام کیلئے پالیسیوں پر بات چیت میں مصروف ہے۔
انہوں نے توانائی کے شعبے پر مالی دباؤ میں کمی کیلئے اقدامات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس سے بے نظیر انکم سپورٹ پرو گرام (بی آئی ایس پی) کے مستحقین کیلئے درکار وسائل میں کمی آئے گی۔
ایسترپیریزروئز نے نئی ایمنسٹی سکیم کوقرض پروگرام کی شرائط کے منافی قرار دیتے ہوئے کہا کہ نئی ایمنسٹی سکیم ایک نقصان دہ مثال پیدا کرتی ہے۔
میڈیا سے اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ آئی ایم ایف نے بجٹ کےحوالے سے بعض چیزوں پر وضاحت مانگی ہے اور انہیں اخراجات ،ٹیکسوں کے معاملے پر تشویش ہے۔ اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف مشن چیف ناتھن پورٹر کے ساتھ ورچوئل بات چیت کی ہے۔
عائشہ غوث پاشا کا کہنا تھا کہ ہم نے آئی ایم ایف کوبجٹ کی حکمت عملی اور وژن سے آگاہ کیا۔ بجٹ کا مقصد معاشی گروتھ لانا ہے تاہم آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹریٹیجک لیول پر بات چیت ہورہی ہے۔ اخراجات سمیت دیگر اعداد و شمار پر مزید تکنیکی بات ہوگی۔
وزیر مملکت نے زور دیا کہ پیٹرولیم لیوی بڑھانے کا فیصلہ نہیں کیا۔ صرف قانون میں گنجائش رکھی ہے۔ اگر ضرورت پڑی تو پیٹرولیم لیوی کی شرح میں اونچ نیچ کریں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف پاور ڈویژن اور سٹیٹ بینک حکام سے بھی بات چیت کرے گا۔ ایکسچینج ریٹ اورپالیسی ریٹ پر آئی ایم ایف سٹیٹ بینک سے بات کرے گا۔ حکومت معاشی استحکام کے علاوہ کوئی قدم نہیں اٹھائے گی۔