بی آر ٹی پشاور منصوبہ: حماقتوں اور نااہلیوں کا منہ بولتا ثبوت

بی آر ٹی پشاور منصوبہ: حماقتوں اور نااہلیوں کا منہ بولتا ثبوت
بالآخر 23 مارچ کی تاریخ بھی گزر گئی لیکن پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) کے منصوبے کا افتتاح ایک بار پھر نہ ہو پایا۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے جب تحریک انصاف کی حکومت نے بی آر ٹی منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچانے کا مژدہ سنایا لیکن اسے پایہ تکمیل تک نہ پہنچایا۔ بی آر ٹی پشاور منصوبہ تقریباً 48 ارب روپے کے تخمینے کے ساتھ اکتوبر 2017 میں شروع کیا گیا تھا۔ یہ 27 کلومیٹر لمبا ٹریک ہے اور اس پر تقریباً 220 بسوں نے روزانہ ہزاروں مسافروں کو پشاور شہر میں ان کی منزل مقصود تک پہنچانا ہے۔ لیکن اکتوبر 2017 میں شروع کیا جانے والا منصوبہ شیطان کی آنت کی طرح لمبا ہی ہوتا چلا رہا ہے اور ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔

تحریک انصاف جو ہمیشہ سے مسلم لیگ نواز کے انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کے منصوبوں بالخصوص میٹرو اور اورنج لائن ٹرین پر تنقید کرتی رہی اس نے اپنے ووٹ بنک کو خوش کرنے کیلئے یہ منصوبہ شروع کیا تھا لیکن عجلت میں شروع کیے جانے والے اس منصوبے کا کوئی پیپر ورک اور جامع منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے جہاں ایک طرف یہ پشاور کے رہائشیوں کیلئے وبال جان بن چکا ہے، وہیں قومی خزانے پر بھی اس کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔



اس وقت تک بی آر ٹی پشاور کے منصوبے پر قریب 68 ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں لیکن ابھی بھی یہ منصوبہ زیر تکمیل ہے۔ 150 سے زائد بسیں ابھی پاکستان آنا ہیں اور اس کے 11 کے قریب بس سٹیشنوں کی تعمیر ابھی باقی ہے۔ ٹکٹ سسٹم سے لے کر آئی ٹی کے معاملات بھی ابھی باقی ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ منصوبہ نومبر 2019 سے پہلے مکمل ہوتا دکھائی نہیں دیتا اور اس کی لاگت 100 ارب روپے تک پہنچنے کے امکانات موجود ہیں۔

یعنی بی آر ٹی پشاور بس کا منصوبہ مکمل ہونے کے بعد پاکستانی تاریخ کا بسوں کے ذریعے سفر کا سب سے مہنگا منصوبہ بن جائے گا۔ لاہور میٹرو بس کا منصوبہ جس کا ٹریک 27 کلومیٹر پر محیط ہے اسے 29.65 ارب روپے، راولپنڈی-اسلام آباد میٹرو بس جس کا ٹریک 22 کلومیٹر لمبا ہے اسے 44.31 ارب روپے اور ملتان میٹرو بس کے منصوبے کو 29 ارب روپے میں مکمل کیا گیا تھا۔ اس منصوبے کو شروع کرتے وقت تحریک انصاف نے اس منصوبے کے بلیو پرنٹ یعنی تعمیر سے متعلق پلاننگ کے کاغذات اور نقشوں کی تفصیل میں جھانکنے کی کوشش نہیں کی اور نتیجتاً اس منصوبے میں فاش غلطیاں بارہا سامنے آتی رہیں۔



مثال کے طور پر منصوبے پر کام کے دوران ایک انڈر پاس تعمیر کرنے کے بعد انجینئروں کو معلوم ہوا کہ جو انڈر پاس تعمیر کیا گیا ہے اس کی چوڑائی اتنی نہیں ہے کہ اس پر سے ٹریک پر چلنے والی بسیں گزر سکیں چنانچہ اس انڈر پاس کو پھر سے تعمیر کیا گیا۔ حشت نگری اور فردوس سنیما کے قریبی علاقے میں بھی منصوبے کا کام کئی بار اس لئے روک کر دوبارہ سے شروع کرنا پڑا کہ کہیں اس کے ٹریک سے سیوریج کے نظام کو مسئلہ آ رہا تھا اور کہیں یہ مختلف چوک اور یو ٹرن بند کرنے کا باعث بن رہا تھا۔

اس قدر سنگین غلطیاں اگر مسلم لیگ نواز سے میٹرو بس کے منصوبوں کی تعمیر کے دوران سرزد ہوئی ہوتیں تو ہمارے میڈیا کے ساتھیوں نے زمین آسمان ایک کر دینا تھا، نیب نے انکوائریوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کر دینا تھا اور عدالتوں نے سو مو نوٹس لیتے ہوئے ان پر سماعت کا آغاز کر دینا تھا۔ لیکن چونکہ یہ غلطیاں تحریک انصاف سے سرزد ہوئی ہیں اس لئے اسے سب معاف ہے۔



بی آر ٹی پشاور کا منصوبہ دراصل تحریک انصاف کی تفصیلات میں جانے، منصوبہ بندی کرنے اور پھر منصوبوں کو تکمیل تک لے جا پانے کی صلاحیتوں کی کمی کا غماز ہے۔ یہ ایک قابل فکر بات ہے کیونکہ اب تحریک انصاف محض صوبہ خیبر پختونخوا میں ہی نہیں بلکہ مرکز اور پنجاب میں بھی اقتدار پر براجمان ہے۔

پاکستان میں جاری حالیہ معاشی بحران بھی تحریک انصاف کی حکمرانی اور کام کرنے کی صلاحیتوں کے فقدان کی وجہ سے درپیش ہے کہ وزیر خزانہ اسد عمر نے پہلے تو آئی ایم ایف کے پاس جانے میں بیحد دیر کر دی، پھر موصوف آئی ایم ایف کے وفد سے ملاقاتوں کے دوران بیو315ریسی کی بنائی گئی فائلوں پر ہی گزارا کرتے رہے۔



یہی حال محترم عمران خان کا ہے جو وعدے اور دعوے کرنے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے لیکن تفصیلات اور منصوبوں کو قابل عمل بنانے کی صلاحیتوں سے عاری ہیں اس لئے اب تک اپنا کوئی بھی وعدہ پورا کرنے سے قاصر ہیں اور یو ٹرن لینے کو قیادت کے وصف کے طور پر گردانتے ہیں۔

چونکہ تحریک انصاف ہر مسئلے کا دوش نواز شریف یا پھر پیپلز پارٹی پر دھر دیتی ہے اس لئے باقی منصوبوں اور دعوؤں پر بات نہ بھی کریں لیکن بی آر ٹی پشاور کا منصوبہ تو خود تحریک انصاف نے شروع کیا تھا اور اس میں التوا کے باعث قومی خزانے پر جو اربوں روپے کا اضافی بوجھ پڑا ہے اس کا دوش بھی تحریک انصاف کے سر ہی ہے۔

عمران خان اور ان کے ہمنوا ہمیشہ سے میٹرو بس کے منصوبوں کو جنگلہ بسیں کہتے رہے اور بنا کسی ثبوت کے مسلم لیگ نواز پر ان منصوبوں میں کرپشن کے الزام دھرتے رہے، اب جبکہ بی آر ٹی پشاور کا منصوبہ طویل سے طویل ہوتا جا رہا ہے اور مسلسل قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کا باعث بن رہا ہے تو ایسے میں کیا تحریک انصاف پر اس کی نااہلی کے باعث قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کے معاملے کی تفتیش نہیں ہونی چاہیے؟



اس بی آر ٹی کے منصوبے کی حالت زار کو دیکھتے ہوئے ہی شاید تحریک انصاف نے ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی کی ہے کیونکہ نہ ہو گا بانس اور نہ بجے گی بانسری کے مصداق جب ترقیاتی کاموں کیلئے بجٹ ہی نہیں بچے گا تو تحریک انصاف کو ایسے منصوبے بنانے ہی نہیں پڑیں گے۔

مسئلہ اب یہ ہے کہ اب وفاق میں حکومت آنے کے بعد تحریک انصاف کے بی آر ٹی جیسے کئی منصوبوں مثلاً پچاس لاکھ گھر اور لاکھوں نوکریوں کے منصوبوں کے بھی پول کھلتے جائیں گے۔

بی آر ٹی پشاور کے معاملے کی کسی غیر جانبدارانہ ادارے سے تحقیقات ہونی چاہئیں اور ان تمام افراد کو قانون کے شکنجے میں لانا چاہیے جو اس منصوبے کی ناقص حکمت عملی تیار کرنے اور اس کی تعمیر میں نقائص کے ذمہ دار ہیں۔

حکمرانی کوئی آن جاب ٹریننگ تو نہیں ہوتی کہ جس میں آپ غلطیوں پر غلطیاں کرتے جائیں تو بھی خیر ہے۔ یہاں قومی خزانے سے پیسوں کا زیاں ہو رہا ہے جس کا تدارک بیحد ضروری ہے۔ بی آر ٹی کا منصوبہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے محض دشنام طراز یوں اور مخالفین پر تہمتیں دھرنے سے کام نہیں چلے گا۔ یہ منصوبہ رفتہ رفتہ تحریک انصاف کے گلے کی ہڈی بنتا جا رہا ہے اور اس کی تعمیر میں حماقت در حماقت نے تحریک انصاف کے عملی محاذ پر کھوکھلے دعوؤں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔

کالم نگار

مصنّف ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں؛ ریڈیو، اخبارات، ٹیلی وژن، اور این جی اوز کے ساتھ وابستہ بھی رہے ہیں۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے بھی وابستہ رہے ہیں اور باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔