توہین کا الزام: جھنگ میں مقامی شیعہ عالم کو کلہاڑیوں کے وار کرکے قتل کر دیا گیا

توہین کا الزام: جھنگ میں مقامی شیعہ عالم کو کلہاڑیوں کے وار کرکے قتل کر دیا گیا
پاکستان میں مذہب کے نام پر قتل  اب ایک عام سی بات ہے۔ تازہ ترین افسوسناک واقع جھنگ سے رپورٹ ہوا جہاں ایک شیعہ مذہبی سکالر کو کلہاڑیوں کے وار کر کے قتل کردیا گیا ہے۔ اخباری رپورٹس کے مطابق  یہ قتل مذہبی منافرت کی بنا پر کیا گیا ہے کیوں کہ تقی نامی مقتول شیعہ سکالر پر سنہ 2019 سے توہین کے الزام کے تحت مقدمہ عدالت میں زیر سماعت تھا۔

تفصیلات کے مطابق مذکورہ شیعہ عالم شورکوٹ میں ایک تقریب میں شریک تھا جب اس پر اس وقت حملہ کیا گیا جب وہ اپنے دوست کے ہمراہ موٹر سائیکل پر جا رہا تھا۔ رپورٹ کے مطابق پہلے وار میں وہ موٹر سائیکل سے گرا ار پھر حملہ آور نے کلہاڑی کے متعدد وار کرکے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔

اسکا ساتھ جو کہ واقعے کا عینی شاہد ہے وہ اس حملے میں محفوظ رہا ہے۔

یاد رہے کہ یہ توہین مذہب و رسالت کے نام پر قتل کا کوئی نیا واقعہ نہیں بلکہ ایسے کئی واقعات گزشتہ سالوں میں ہو چکے ہیں اور مانیٹرنگ اداروں کی رپورٹس بتا رہی ہیں کہ ان کی شرح میں تیز رفتار اضافہ ہوچکا ہے۔ اس پر تشدد نفرت سے ویسے تو سنی مسلمان جو کہ اس ملک میں مذہبی اکثریت کا حصہ ہیں وہ بھی محفوظ نہیں تاہم شیعہ کمیونٹی اور احمدی کمیونٹی اس کا سب سے زیادہ اور آسان ہدف ہیں۔

 گزشت سال نومبر میں ایک اور واقعہ میں  اسلام آباد ماڈل کالج میں معاشرتی علوم کے ٹیچر ، عمر محمود نے لیکچر کے دوران حضرت عمر پر لیکچر دینا شروع کیا تو شیعہ سٹوڈنٹ قلب عباس نے رد عمل دیا۔ پاس بیٹھے سٹوڈنٹس محمد وقاص اور اعجاز خان نے اسے مارنا پیٹنا شروع کر دیا تھا  اور دیگر 10 سے 13 سٹوڈنٹس بھی اس ‘کارِ خیر’ میں شامل ہو گئے ۔ جلد پرنسپل اور دیگر ٹیچرز کلاس میں جمع ہوئے ، شاہدین کے مطابق مجمع جذباتی اور مشتعل تھا ، قلب عباس کو تھانے کے حوالے کر دیا گیا۔

 خود شیخ رشید کاکہنا تھا  کہ ملک میں شیعہ سنی فساد کرانے کی بھارتی سازش ناکام بنا دی گئی ہے، شیعہ سنی علما کو قتل کرنے کا منصوبہ بنانے والے کچھ لوگ پکڑ لیے ہیں۔


شیخ رشید نے کہا کہ سازش یہ تھی کہ راولپنڈی اسلام آباد جیسے حساس شہروں میں قتل و غارت کر کے ملک بھر میں آگ لگائی جائے، جو ملزمان کو پکڑ کر ناکام بنا دی گئی ہے، ملک میں قائم شیعہ سنی ہم آہنگی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ 


دوسری جانب  ریاست کی جانب سے بھی ایسے اقدامات سامنے آتے رہے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خود ریاست اقلیتوں کی جانب تعصب کا شکار ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ  جس میں کامونکی پولیس نے ایک تین سالہ کم سن شیعہ بچے پر ( MPO16) کے تحت اپنے گھر پر ایک مجلس منعقد کرنے کے جرم میں FIR میں نامزد کر دیا تھا۔

گجرانوالہ کے ایک رہائشی شاہ شاہد نے اپنے گھر پر ایک مجلس کا انعقاد کیا مگر اس سلسلے میں انہوں نے مقامی انظامیہ سے NOC حاصل نہیں کیا تھا۔ مجلس کے دعوت نامے پر شاہ شاہد کے ساتھ ساتھ تین سالہ فضل عباس کا نام بھی بطور میزبان درج کیا گیا تھا