Get Alerts

انتظامیہ کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے، از خود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ کے ریمارکس

انتظامیہ کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے، از خود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ کے ریمارکس
سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے تحقیقاتی اداروں میں اعلی حکومتی شخصیات کی مداخلت پر ازخود نوٹس کی سماعت کی۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ ای سی ایل رول 2010 کا سیکشن دو پڑھیں، جن کے مطابق کرپشن، دہشتگردی، ٹیکس نادہندہ اور لون ڈیفالٹر باہر نہیں جا سکتے، کابینہ نے کس کے کہنے پر کرپشن اور ٹیکس نادہندگان والے رول میں ترمیم کی؟ کیا وفاقی کابینہ نے رولز کی منظوری دی ہے؟، نیب کے مطابق ان سے پوچھے بغیر ملزمان کے نام ای سی ایل سے نکالے گئے۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کابینہ کی منظوری کے منٹس پیش کردوں گا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ کیا 120 دن بعد ازخود نام ای سی ایل سے نکل جائے گا؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 120 دن کا اطلاق نام ای سی ایل میں شامل ہونے کے دن سے ہوگا۔

جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیے کہ کابینہ کے ارکان خود اس ترمیم سے مستفید ہوئے، وہ اپنے ذاتی فائدے کیلئے ترمیم کیسے کر سکتے ہیں؟، کابینہ ممبران کا نام ای سی ایل میں ہونا اور ای سی ایل رولز میں کابینہ کی ترمیم کیا مفادات کا ٹکراؤ نہیں؟

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ معلوم ہے کہ وفاقی وزراء پر ابھی صرف الزامات ہیں، کیا کوئی ضابطہ اخلاق ہے کہ وزیر ملزم ہو تو متعلقہ فائل اس کے پاس نہ جائے؟ ملزم وزراء کو تو خود ہی ایسے اجلاس میں نہیں بیٹھنا چاہیے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے بھی کہا کہ اپنے فائدے کیلئے ملزم کیسے رولز میں ترمیم کر سکتا ہے؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا سرکولیشن سمری کے ذریعے ایسی منظوری لی جا سکتی ہے؟ کابینہ کا کام ہے کہ ہر کیس کا جائزہ لیکر فیصلہ کرے۔ عدالت نے ای سی ایل سے نکالے گئے کابینہ ارکان کے ناموں کی تفصیلات طلب کر لیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ای سی ایل رولز میں ترمیم کے بعد نظرثانی کا طریقہ کار ہی ختم ہو گیا۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ دیکھ لیتے ہیں کہ کیا وہ ممبران جن کے نام ای سی ایل میں تھے وہ ترمیم والے کمیٹی اجلاس میں موجود تھے یا نہیں، دراصل وزیر قانون اعظم نزیر تارڑ نے ای سی ایل رولز میں ترمیم تجویز کی تھی۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ اعظم نذیر تارڑ جس شخص کے وکیل تھے اسی کو فائدہ پہنچایا، کیا طریقہ کار اپنا کر ای سی ایل رولز میں ترمیم کی گئی؟

وزیراعظم شہباز شریف کے وکیل عرفان قادر عدالت میں پیش ہوئے اور عدالت کو درخواست کی کہ وزیراعظم کا وکیل ہوں مجھے سنا جائے۔ چیف جسٹس پاکستان نے عرفان قادر کے درخواست پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم انفرادی طور پر کسی کو نہیں سن رہے ، فوجداری نظام سے متعلق مقدمہ سن رہے ہیں۔

وکیل عرفان قادر نے عدالت سے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عدالت ہمیں بتائے کہ سوالات بتا دے جس پر معاونت کی ضرورت ہے، اہم مقدمہ ہے اس کے حکومت پر اثرات ہوں گے۔

چیف جسٹس نے وکیل عرفان قادر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے آپ کو عدالتی معاونت کے لیے نہیں بلایا،آپ نے جو کہنا ہے تحریری طور پر لکھ کر دے دیں۔

ایڈوکیٹ عرفان قادر نے عدالت کے سامنے جواب دیتے ہوئے کہا آپ پہلے سوال لکھے اس حساب سے جواب تیار کرونگا۔

عرفان قادر ایڈوکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ دو سیاسی جماعتیں میں مخاصمت ہے اور ایک سیاسی جماعت مسلسل الزام لگا رہی ہے جس میں عدالت کو جوڑا جا رہا ہے۔

چیف جسٹس کا عرفان قادر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے لیکن ایف آئی اے رپورٹ سے تاثر ملا کہ معاملات کو غیر سنجیدہ اقدامات سےکور کیا گیا۔

چیف جسٹس پاکستان نے ہدایت کی کہ ای سی ایل رولز میں ترمیم کے طریقہ کار سے متعلق رپورٹ جمع کرائیں، فی الحال حکومت کے ای سی ایل رولز سے متعلق فیصلے کو کالعدم قرار نہیں دے رہے، قانون پر عمل کے کچھ ضوابط ضروری ہیں، انتظامیہ کے معاملات میں مداخلت کرنا نہیں چاہتے۔

عدالت میں وزیر اعظم اور وزیراعلی پنجاب کے کیس میں ایف آئی اے افسران کے تبادلے سے متعلق ایف آئی رپورٹ پر بحث ہوئی۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ایف آئی اے رپورٹ سے تاثر ملا کہ بہت سے معاملات کو غیر سنجیدہ اقدامات کے ذریعے کور کیا گیا، وزارت قانون نے 13 مئی کو سکندر ذوالقرنین سمیت ایف آئی اے پراسکیوٹرز کو معطل کیا، بظاہر ایف آئی اے پراسکیوٹرز کو کیس کی دو سماعتوں میں پیش نا ہونے کی بنیاد پر معطل کیا گیا ہے، کیا آپ نے پراسکیوٹرز کو یہ کہا کہ آپ پیش ہو نا ہوں آپ فارغ ہیں؟ پراسکیوٹرز کو تبدیل کرنے کے لیے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا، انویسٹیگیشن آفیسر کو بھی بیماری کی وجہ سے تبدیل کیا گیا، حالانکہ وہ تبدیل ہونے کے ایک مہینہ بعد بیمار ہوا۔

جسٹس منیب اختر نے بھی کہا کہ کیا جن سماعتوں پر پیش نا ہونے پر پراسکیوٹرزکو معطل کیا گیا وہ نئی حکومت کے قیام کے بعد کی تھیں؟۔

سپریم کورٹ نے ڈی جی ایف آئی اے اور ڈائریکٹر لاء آپریشنز ایف آئی اے عثمان گوندل کو ریکارڈ سمیت طلب کرلیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ایف آئی اے پراسکیوشن ٹیم بظاہر مقدمہ کی کارروائی رکوانے کیلئے تبدیل کی گئی، آرٹیکل 248 وزراء کو فوجداری کارروائی سے استثنی نہیں دیتا، وفاقی وزراء کیخلاف فوجداری کارروائی چلتی رہنی چاہیے، فوجداری نظام سب کیلئے یکساں ہونا چاہیے۔

عدالت نے کیس کی سماعت ملتوی کردی۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔