کل تک معاملے کاحل نکالیں، آپ کے پاس کل کا وقت ہے،چیف جسٹس

کل تک معاملے کاحل نکالیں، آپ کے پاس کل کا وقت ہے،چیف جسٹس

اسلام آباد: آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے کیس میں سپریم کورٹ نے حکومت کو کل تک کوئی حل نکالنے کی مہلت دے دی۔


آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے انتہائی اہم ریمارکس دیے کہ بہت سارے قواعد خاموش ہیں اور کچھ روایتیں بن گئی ہیں، ماضی میں 6 سے 7 جنرل توسیع لیتے رہے کسی نے پوچھا تک نہیں، اب معاملہ ہمارے پاس آیا ہے تو طے کرلیتے ہیں۔


جسٹس آصف سعید کھوسہنے ریمارکس دئے کہ ہمارے لئے کوئی اہم نہیں نہ ہم شخصیات پر بات کرتے ہیں ہمارے لیے اہم قانون ہے جن کی ہم نے پاسداری کرنی ہے اگر آپ مطمئن نہیں کرسکے تو ہم پھر کوئی فیصلہ کرینگے،اگر آپ کل تک لیگل بیکینگ اور طریقہ کار کو واضح نہیں کرسکے تو ہمیں مجبور کوئی فیصلہ کرنا پڑے گا کیونکہ ہم نے حلف لیا ہے اور ہم اللہ کو جواب دہ ہے.

انکا کہنا تھا کہ آپ کے پاس ایسے لوگ ہے جو جانتے نہیں قانونی چیزیں کیا ہے. وزیراعظم کی سمری میں کچھ اور لکھا ہے، صدر کے نوٹیفکیشن میں کچھ اور لکھا ہے یہ کیسے لوگ حکومت چلا رہے ہیں پلیز ان کی ڈگریاں چیک کریں۔ 

اس سے قبل سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ مدت ختم ہونے پر آرمی چیف ریٹائر ہوجاتا ہے ،پھر اسے دوبارہ آرمی چیف کیسے لگایا جا سکتا ہے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ جنرل ریٹائر نہیں ہوتا، آئین میں جنرل کی ریٹائرمنٹ کی مدت نہیں۔


اٹارنی جنرل کے جواب پر جسٹس منصور نے ریمارکس دیے کہ آپ کےکہنےکامطلب ہے 10 سال پہلےکےکسی جنرل کوبھی بلاکرآرمی چیف لگاسکتےہیں،کیونکہ جنرل تو ریٹائر ہی نہیں ہوتا۔

اٹارنی جنرل کے جواب پر چیف جسٹس پاکستان نے آرمی چیف کے وکیل فروغ نسیم سے دلچسپ مکالمہ کیا اور کہا کہ فروغ نسیم آپ کہہ رہے ہیں آرمی چیف کل ریٹائر ہوجائیں لیکن اٹارنی جنرل کہتے ہیں جنرل ریٹائر ہی نہیں ہوتا، آپ کے مطابق کسی سابق فوجی افسر کو بھی آرمی چیف لگایا جاسکتا ہے؟ 


چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کا تین رکنی بینچ کیس کی سماعت کررہا ہے.


دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ پہلے یہ بتائیں آرمی ایکٹ میں کہاں لکھا ہےاچھے افسرکو توسیع دے دیں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ رولز 176 میں یہ چیزیں بتائی گئی ہیں، اس پر معزز جج نے کہا کہ 176 میں تو صرف رولز ہیں، اچھا کام کرنے والے افسران کی مدت میں توسیع کا ذکر نہیں۔


چیف جسٹس نے انورمنصور سے سوال کیا کہ بتائیں اچھی کارکردگی والے افسر کو کس قانون کے تحت عہدے پر برقرار رکھا جاتا ہے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیکشن 176 میں قواعد بنانے کے اختیارات موجود ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیےکہ آرمی آفیسر کے حلف میں ہے کہ اگر جان دینی پڑی تو دے گا، یہ بہت بڑی بات ہے، "میں خود کو کسی سیاسی سرگرمی میں ملوث نہیں کروں گا" یہ جملہ بھی حلف کا حصہ ہے، بہت اچھی بات ہے اگر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نا لیا جائے۔


جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا آرمی ایکٹ میں کسی بھی افسر کی مدت سروس کا ذکر ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ مدت ملازمت کا ذکر رولز میں ہے ایکٹ میں نہیں۔ اٹارنی جنرل کے جواب پر چیف جسٹس نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں مدت اور دوبارہ تعیناتی کا ذکر نہیں، آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا بھی ذکر ایکٹ میں نہیں۔


جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مزید کہا کہ فیلڈ مارشل سمیت کسی بھی آرمی افسر کو حکومت ریٹائرڈ کر سکتی ہے، حکومت رضاکارانہ طور پر یا پھر جبری طور پر ریٹائر کرسکتی ہے، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس میں کسی مدت کا ذکر نہیں ہے۔ دورانِ سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ آرمی چیف کا اپائمنٹ لیٹر کہاں ہے؟ عدالت کے استفسار پر اٹارنی جنرل نے آرمی چیف کی تعیناتی کا لیٹر پیش کیا۔


جسٹس منصور نے مزید استفسار کیا کہ مدت ختم ہونے پر آرمی چیف ریٹائر ہوجاتا ہے ،پھر اسے دوبارہ آرمی چیف کیسے لگایا جا سکتا ہے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ جنرل ریٹائر نہیں ہوتا، آئین میں جنرل کی ریٹائرمنٹ کی مدت نہیں۔


اٹارنی جنرل کے جواب پر جسٹس منصور نے ریمارکس دیے کہ آپ کےکہنےکامطلب ہے 10 سال پہلےکےکسی جنرل کوبھی بلاکرآرمی چیف لگاسکتےہیں،کیونکہ جنرل تو ریٹائر ہی نہیں ہوتا۔


چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آرمی ایکٹ پر عملدرآمد کے لیے رولز بنائے گئے، ان آرمی افسران جن کو سزا ہوئی تھی ان کا رکارڈ منگوا لیں تاکہ تمام پہلوؤں کا تعین ہوسکے، 255 کی ذیلی شق اے میں مقررہ مدت پر ریٹائرمنٹ کا لفظ ہے جو آپ کے حق میں نہیں، آرٹیکل 255 بی بھی آپ کے حق میں نہیں جا رہا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ چیف آف آرمی اسٹاف کو کیا وفاقی حکومت مقرر کرسکتی ہے؟ صدر، وزیراعظم کی سفارش پر آرمی چیف کو آ ئینی عہدے کیلئے تعینات کرتا ہے۔


اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ عدالت کو آرمی چیف کے جنرل کے عہدے پر غور کرنا ہوگا، اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آرمی چیف اور جنرل کو الگ نہیں کیا جاسکتا، ہمارے سامنے صرف آرمی چیف کا معاملہ ہے کسی جنرل کا نہیں، شق 255 آرمی چیف کو ڈیل نہیں کرتی۔


جسٹس مظہر عالم نے سوال کیا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت کیا ہوگی؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرمی چیف عہدہ ہے لیکن وہ بھی جنرل ہیں،  اس پر چیف جسٹس نے کہاکہ مدت تو 65 سال تک لکھی ہے، چیف جسٹس کے ریمارکس پر اٹارنی جنرل نے کہاکہ وہ تو پرانی اور غیرمتعلقہ ہے، 255 اے، بی اور سی ریٹائرمنٹ سے متعلق ہے،۔


اس سے قبل سماعت کے آغاز سے پہلے بیرسٹر فروغ نسیم نے کمرہ عدالت میں وکالت نامہ جمع کروایا۔

روسٹرم پر آنے کے بعد چیف جسٹس نے پوچھا کہ ریاض راہی صاحب آپ کہاں رہ گئے تھے، کل آپ تشریف نہیں لائے، ہم نے آپ کی درخواست زندہ رکھی، جس پر ریاض راہی نے کہا کہ حالات مختلف پیدا ہوگئے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے جواب دیا کہ ہم انہی حالات میں آگے بڑھ رہے ہیں، آپ تشریف رکھیں۔

چیف جسٹس نے یہ بھی واضح کیا کہ یہ از خود نوٹس نہیں ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ میڈیا کو سمجھ نہیں آئی، اس معاملے پر ہم نے ازخود نوٹس نہیں لیا، ہم کیس ریاض راہی کی درخواست پر ہی سن رہے ہیں۔

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس پاکستان جسٹس  آصف سعید کھوسہ نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ کل ہم نے جو نکات اٹھائے آپ نے انہیں تسلیم کیا، اسی لیے آپ نے انہیں ٹھیک کرنے کی کوشش کی، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم نے ان غلطیوں کو تسلیم نہیں کیا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ کل کے عدالتی حکم میں بعض غلطیاں ہیں، میں نے کل آرمی رولز کا حوالہ دیا تھا، عدالت نے حکم نامے میں قانون لکھا، عدالت نے کہا صرف 11 ارکان نے کابینہ میں توسیع کی منظوری دی۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اب تو حکومت اس کارروائی سے آگے جا چکی ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کابینہ سے متعلق نقطہ اہم ہے اس لیے اس پر بات کروں گا۔

اٹارنی جنرل کی بات پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کابینہ کے ارکان کے مقررہ وقت تک جواب نہیں دیا گیا تھا، ساتھ ہی چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے آپ کی دستاویزات کو دیکھ کر حکم دیا تھا، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ رول 19 کے مطابق جواب نہ آنے کا مطلب ہاں ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ رول 19 میں وقت مقرر کرنے کی صورت میں ہی ہاں تصور کیا جاتا ہے۔

چیف جسٹس کے ریمارکس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آرٹیکل 243 کے مطابق صدر مملکت، افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر ہیں، آرٹیکل 243 کے تحت ہی صدر، وزیراعظم کے مشورے پر افواج کے سربراہ تعینات کرتے ہیں۔

اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ آرٹیکل 243 میں تعیناتی کا ذکر ہے، کیا تعیناتی کی مدت کا بھی ذکر ہے، کیا ریٹائرڈ جنرل کو آرمی چیف بنایا جاسکتا ہے۔



دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ آرمی چیف کی مدت ملازمت کا انتہائی اہم معاملہ ہے، ماضی میں 5 یا 6 جنرلز خود کو توسیع دیتے رہے ہیں، مستقبل میں ایسے مسائل پیدا نہ ہو اس لیے اس معاملے کو تسلی سے دیکھتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ انتہائی اہم معاملہ ہے مگر اس میں آئین خاموش ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مدت تعیناتی نوٹیفکیشن میں لکھی جاتی ہے جو صوابدید ہے۔ اٹارنی جنرل کی بات پر چیف جسٹس نے کہا کہ 5، 6 جنرل خود کو توسیع دیتے رہے، 10، 10 سال تک توسیع لی گئی لیکن کسی نے پوچھا تک نہیں، تاہم آج یہ سوال سامنے آیا ہے، اس معاملے کو دیکھیں گے تاکہ آئندہ کے لیے کوئی بہتری آئے۔

چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ ابھی تک ہمیں یہ سکیم ہی سمجھ نہیں آئی کہ کن رولز کے تحت توسیع ہوئی۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ دیکھتے ہیں بحث کب تک چلتی ہے، ابھی تک تو ہم کیس سمجھ ہی رہے ہیں۔ بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت ایک بجے تک ملتوی کردی۔



خیال رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹیفکیشن معطل کر دیا تھا۔

یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ 19 اگست کو چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں 3 سال کی توسیع کر دی گئی تھی۔ وزیراعظم آفس سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے موجودہ مدت مکمل ہونے کے بعد سے جنرل قمر جاوید باجوہ کو مزید 3 سال کے لیے آرمی چیف مقرر کیا تھا۔

نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ علاقائی سیکیورٹی کی صورتحال کے تناظر میں کیا گیا ہے۔

آرمی چیف کو مزید 3 برس کے لیے پاک فوج کا سربراہ مقرر کرنے کے فیصلے کا مختلف سیاستدانوں اور صحافی برادری نے خیر مقدم کیا تھا۔ تاہم چند حلقوں کی طرف سے حکومت کے اس فیصلے پر تنقید بھی کی جا رہی تھی۔

خیال رہے کہ 29 نومبر 2016 کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت مکمل ہونے کے بعد ان کی جگہ پاک فوج کی قیادت سنبھالی تھی، انہیں اُس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے فوج کا سربراہ تعینات کیا تھا۔



اس سے قبل