Get Alerts

کیا عمران خان آخری گیندیں کھیل رہے ہیں؟

کیا عمران خان آخری گیندیں کھیل رہے ہیں؟
لاہور کے ایک ریستوران میں کھانے کے انتظار میں تھے کہ انہوں نے اپنی بات کہنی شروع کی اور کہا کہ ان کو اتنا آسان نا لینا، جو کہتے ہیں کر کے دکھاتے ہیں۔ یہ اسی ماہ، یعنی کہ نومبر کی تقریباً شروع کی تاریخیں تھیں۔ بات کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ بھی کہا گیا کہ انہوں نے کہا ہے کہ اسی مہینے کے آخر تک آرمی چیف صاحب کو گھر جانا ہو گا۔ میں بات کو غیر سنجیدہ طور پر لیتے ہوئے پیچھے مُڑ کر دیکھنے لگا تو علم ہوا تھوڑی ہی دور سہیل وڑائچ بیٹھے دوستوں کے ساتھ گپ شپ میں مصروف تھے، میں نے گردن واپس گھما کر ان صاحب سے پوچھا کہ کیا یہ اسی بات کہ کڑی سمجھوں کہ ہمارے کچھ صحافی عمران خان اور آرمی چیف کی ایکسٹینشن کے حوالے سے ٹویٹر اور ٹی وی پر خندقیں کھود کر بیٹھ گئے ہیں اور ان کو علم ہے کہ ایسا ہی کچھ ہونے والا ہے؟

صابر شاکر صاحب کی آج کی ٹویٹ سے مجھے حضرت کافی گھبرائے ہوئے معلوم ہوئے۔ مگر دراصل بات یہ نہیں ہے، اس گھبرانے کی وصولی بھی تو ہوئی ہو گی۔ میری بات کو سہارا ایک اور بات ایسے دے گی کہ آج کل پیسے اور پلاٹوں کے بغیر تو کھانے کی دعوتیں قبول نہیں ہوتیں۔ عرض یہ ہے کہ وہیں سے اس بات کی جانب بھی اشارہ ہوا کہ کیا آپ کو علم ہے کہ مولانا کن مقاصد کے لئے میدان میں آئے تھے؟ ظاہر ہے، ہمیں کیا معلوم کیوں کر آئے تھے، تو جناب انہی کی زبانی، یہ بھی دراصل اسی کھیل کی ایک کڑی تھی اور ایسے کئی کھیل ابھی مزید کھیلے جانے ہیں۔ یہ آپ کی بھول ہے کہ جو طاقتور ہے، اس کو طاقتور سمجھ لیتے ہیں۔ طاقتور دراصل کوئی اور ہے اور اب یہ تو زیادہ تر لوگ جان ہی چکے ہیں۔

لیکن سوال پھر پیدا ہوتا ہے کہ کسی کو عمران خان اور ان کے آرمی چیف سے متعلق مدت ملازمت میں توسیع سے کیا لینا دینا؟

یہ سوال آپ اپنے دائیں کان میں داخل کیجیے اور بائیں کان سے نکال دیں اور اب سنیے۔ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ اس فیصلے نے آرمی چیف کی کُرسی کو ایک بار ہلایا ہے اور اس چھیڑ چھاڑ سے کُرسی کی ساخت متاثر ہوئی ہے؟ اس وار کا شائد ابھی تک یہی مقصد تھا جو کہ کرنے والوں کے لئے پورا ہوا۔ اب اگلی کسی کڑی کا دیکھنے والوں کو انتظار ہے۔

مگر کیا اس سب کے دوران فوج کی جانب سے کسی انتہائی اقدام کی امید کی جاسکتی ہے؟ میری رائے میں تو نہیں۔

جب واٹس ایپ پر عاصم باجوہ صاحب کی نئی تقرری کا نوٹیفیکیشن پڑھا تو یہی سوچ ذہن میں آئی، اب تو دراصل کسی بھی روایتی طریقہ حصول طاقت کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ یہ ایسا ہی ہے کہ پیار محبت میں سبھی کچھ اپنے نام کرانے کے لئے کسی بھی تشدد کی بھلا کیا ضرورت، اب خود بتائیں، کیانی صاحب سے اداروں کے سیاسی ہونے کا عمل یہاں تک آن پہنچا کہ اب زیادہ تر اداروں کی کمان محفوظ ہاتھوں میں تقریباً جا چکی ہے۔ تو کیا ضرورت رہتی ہے مارشل لا یا کسی بھی ایمرجنسی کی۔

کچھ تو یہ بھی کہتے سُنے گئے کہ لگتا ہے کہ سیاست کو اب دس سال کا آرام چاہیے۔ سیاست بہت تھک گئی ہے لیکن ذرا رُکیے، ٹھنڈے دماغ سے سوچیے اور اب جواب دیں۔ کیا سیاست سے کسی بھلے کو کوئی نقصان بھی ہے؟ جب سب کچھ بہت آرام سے ہوئے جا رہا ہے، تو کیسی زبردستی۔

ہاں یہ سوال ضرور کھڑا اپنے جواب کا منتظر ہے کہ وزیراعظم پاکستان کا ضبط کب جواب دے جائے۔ جواب دے گا بھی  یا نہیں۔ کیا ضبط اس قابل بھی ہے۔

ابھی تک تو خان صاحب اپنے اس بیان پر پورے اترتے نظر آرہے ہیں کہ آخری گیند تک ہار نہیں ماننی چاہیے۔ خان صاحب بھی اپنی جانب آئی ہر مشکل گیند کو مس کروا رہے ہیں، شاٹ لگانے لگتے ہیں کہ گیند بغل سے نکل جاتی ہے اور وہ گیند کو لے کر کچھ خود بھی ضرورت سے زیادہ غیر سنجیدہ نظر آتے ہیں۔



سوال یہ ہے کہ کیا خان صاحب آخری گیندیں کھیل رہے ہیں؟

اس کا جواب تو وقت دے گا یا آپ زیادہ بہتر دے سکتے ہیں، کیونکہ سوشل میڈیا کے دور میں ہر دوسرا شخص ہی دانشور ہے اور وہ سب جواب رکھتا ہے۔ تو آپ کی رائے بھی ظاہر ہے اہمیت کی حامل ہے لیکن خان صاحب اس دوران بہت تھک چکے ہیں۔ مجھے تو لگتا ہے کہ یہ کھیل کے دورانیے کی کیفیت ہے۔ خان صاحب آخری گیند تک مقابلہ کریں گے اور اپنے لائے جانے کا حق ادا کریں گے، مگر کہیں کوئی تصادم کی صورتحال میں اضافہ ہوا تو خان صاحب کو لوگ یہ تجویز دیتے بھی نظر آئیں گے کہ وہ اپنے اوپر بھار کو کم کرتے ہوئے سب کچھ سچ سچ بتا دیں اور کہہ دیں کہ ان سے کیا کام لیے جا رہے ہیں۔

شائد اس لمحے کو ابھی وقت لگے۔ ویسے میرا خیال اس سے آگے جھانک رہا ہے۔ گذشتہ دنوں سینئر صحافی سبوخ سید سے بھی غیر رسمی گفتگو میں یہ بات چھڑی کہ آنے والے وقتوں میں کیا نظر آ رہا ہے۔ کہتے ہیں کہ مجھے تو یہ نظر آ رہا ہے کہ ہم میں سے بیشتر لوگ، سول سپرمیسی کے نام پر عمران خان کے ساتھ کھڑے نظر آ رہے ہوں گے۔



میری تشویش وہیں اب بھی ٹھہری ہوئی ہے، تو کیا ڈان لیکس والا معاملہ بھی یہی نا تھا؟

نواز شریف اسی ضد کی وجہ سے ذلیل ہوتا رہا، اور اب خان صاحب؟ ہونا تو شائد خان صاحب کے ساتھ بھی ایسا ہی ہے۔ مگر وقت اور صورتحال پر سوالات کی گنجائش بہرحال باقی ہے۔ قارئین ہمارے ملک کو ایسے ہی تجربوں سے بہت نقصان پہنچ چکا ہے، مزید پہنچ رہا ہے اور پہنچے ہی جا رہا ہے۔ بولنے والی آوازیں سب بند ہیں، جو بول رہے ہیں، ان کو غدار اور ایجنٹ کہہ کر غیر متعلقہ بنا دیا جاتا ہے۔

اس بیانیے کی بظاہر جیت ہے کہ سب اچھا بھلا چل رہا ہے لیکن آخر کب تک۔ ایوب نے بھی ترقی کے دس سالوں کا جشن منایا تھا۔ جس کو عوام نے لپیٹ کر منہ پر دے مارا تھا۔ کاش کہ آج کے عوام بھی اپنی زنجیریں یونہی توڑ سکیں اور اس نورا کُشتی میں اپنے بنیادی مسائل سے توجہ ہٹاتی اس سازش کو کامیاب نا ہونے دیں۔

سلمان درانی لاہور میں مقیم صحافی ہیں۔ بیشتر قومی اخبارات، اور آن لائن آؤٹ لیٹس پر رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کا ٹویٹر ہینڈل @durraniviews ہے۔