آج تو سُپریم کورٹ کی پارکنگ ہی کھڑکی توڑ رش کی نوید دے رہی تھی۔ بہت تلاش کے بعد بڑی مُشکل سے دوسرے ڈرائیوروں کا امتحان لینے کے لیے اپنی گاڑی ایک ایسی جگہ پر پارک کی جہاں سے کوئی بھی بڑی آسانی سے میری گاڑی کو رگڑ لگا کر گُزر سکتا تھا۔ بھاگا بھاگا کمرہِ عدالت میں داخل ہوا تو ہاوس فُل تھا۔ اینکرز، صحافی، سیاسی جماعتوں کے ارکان، حکومتی ٹیم اور وزرا سمیت وکلا کا ایک ہجوم کمرہ عدالت میں موجود تھا۔ فروغ نسیم، اٹارنی جنرل اور بیرسٹر شہزاد اکبر کے ساتھ سرکار کے لیے مُختص وُکلا کی نشستوں پر براجمان تھے۔ اُنہوں نے کسی دستاویز پر دستخط کر کے کورٹ رجسٹرار کو بھیجے جبکہ پاکستان بار کونسل کے امجد شاہ بھی احسن بھون اور دیگر وُکلا کے ساتھ فروغ نسیم کی فائل پڑھ رہے تھے۔ کورٹ رجسٹرار سے معصومانہ انداز میں پوچھا کہ فروغ نسیم نے وکالت نامہ بھیجا ہے؟ انہوں نے ہاں بول کر کنفرم کر دیا۔
https://www.youtube.com/watch?v=9-o0sDkxWL0&t=2s
گھومتے پھرتے پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین امجد شاہ صاحب کے پاس پہنچا اور پوچھا آپ لوگوں فروغ نسیم صاحب کا لائسنس بحال کر دیا؟ انہوں نے جواب دیا نہیں۔ اگلا سوال پوچھا کہ کیسے بحال ہو گا؟ کیا پروسیجر سابق وزیرِ قانون کو اپنانا ہو گا؟ ایڈوکیٹ امجد شاہ نے جواب دیا فروغ نسیم کو ہمیں لائسنس بحالی کے لیے درخواست جمع کروانی ہو گی۔
وہاں سے ہٹا تو نوجوان لیکن قابل وکیل اور لکھاری صلاح الدین سے گپ شپ کرنے لگا۔ اُن سے پوچھا کہ ریما عُمر نے ٹویٹ کررکھی ہے کہ کل رات آرمی ایکٹ کی جِس شِق دو سو پچپن میں ترمیم کی ہے وہ اب بھی عدالت کی نظرِ ثانی کی مُتقاضی ہے۔
https://www.youtube.com/watch?v=eJdNWqJ8nTo&t=257s
ایڈوکیٹ صلاح الدین نے جواب دیا کہ ماضی میں سُپریم کورٹ این آر او کو چند افراد کے فائدہ کے لیے بنا قانون قرار دے کر غیرقانونی کہہ چُکی ہے۔ اِسی طرح یوسف رضا گیلانی کے کیس میں بھی جب کابینہ نے توہینِ عدالت ایکٹ میں ترمیم کی تو سُپریم کورٹ نے اُسے یہ کہہ کر مُسترد کر دیا تھا کہ یہ ایک شخص کو فائدہ پہنچانے کے لیے ہے۔ اِس لیے دیکھتے ہیں کہ اِس ترمیم کے ساتھ سُپریم کورٹ کیا رویہ اپناتی ہے۔
ابھی گپ شپ جاری تھی کہ کورٹ آ گئی کی آواز لگ گئی۔ جیسے ہی تینوں ججز اپنی نشستوں پر بیٹھے بینچ کے سربراہ چیف جسٹس نے مُسکراتے ہوئے سوال کیا کہ گُمشدہ پیٹشنر کا پتہ چلا؟ پیٹشنر ریاض حنیف راہی وکلا کے ہجوم سے نکل کر اٹارنی جنرل کے برابر روسٹرم پر آ کر کھڑے ہو گئے۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اگلا سوال کیا راہی صاحب کِدھر رہ گئے تھے؟ ہم نے آپ کی پیٹیشن کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ چیف جسٹس نے حنیف راہی سے دریافت کیا کہ اب آپ یہ کیس چلانا چاہ رہے ہیں یا نہیں؟ حنیف راہی ایڈوکیٹ نے کپکپاتے ہونٹوں کے ساتھ جواب دیا کہ جی سر! وہ میں، حنیف راہی کے منہ سے الفاظ نہیں نکل رہے تو چیف جسٹس کھوسہ نے ریمارکس دئیے کہ چلیں ہم ہی چلا لیتے ہیں آپ رہنے دیں!
اِس کے بعد چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اٹارنی جنرل کو دلائل شروع کرنے کی دعوت دی۔ اٹارنی جنرل نے دلائل کا آغاز اِس گِلے سے کیا کہ آپ نے کل حُکمنامہ میں لِکھ دیا کہ میں آرمی ایکٹ سے کوئی شِق نہیں لا سکا حالانکہ میں نے آرمی رولز ریگولیشن کی بات کی تھی۔ چیف جسٹس کھوسہ نے جواب دیا کہ آپ نے جو دستاویز دیں ہم نے اُنکی بُنیاد پر فیصلہ لکھ دیا۔
https://www.youtube.com/watch?v=Af50cdRQ1j8
تین رُکنی بینچ کے سربراہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اِس موقع پر اہم ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایک بات تو طے ہوگئی ہم نے جو اعتراض کیے تھے آپ نے اُنکو مانا اور کل کابینہ کا اجلاس بُلا کر درست کیا۔
اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ جی نہیں ایسا نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے آبزرویشن دی کہ اگر ایسا نہیں ہے تو کل کی بُنیاد پر فیصلہ دے دیتے ہیں۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ وہ آرمی ایکٹ اور آرمی رولز ریگولیشنز میں ایکسٹینشن کے بارے میں کُچھ دِکھا سکتے ہیں؟َ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آئینِ پاکستان کا آرٹیکل دو سو تینتالیس وزیراعظم کی ایڈوائس پر صدر کو ملٹری چیف کی تعیناتی کا اختیار دیتا ہے۔
25003/
جسٹس منصور نے آبزرویشن دی کہ آرٹیکل 243 آرمی چیف کی تعیناتی کا کہتا ہے ازسرِ نو تعیناتی کا نہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اِس موقع پر اٹارنی جنرل سے سوال پوچھا کہ کیا صدر ریٹائرڈ فوجی افسر کو بھی آرمی چیف تعینات کر سکتا یا صرف حاضر سروس افسر ہی آرمی چیف بننے کا اہل ہوتا ہے؟ جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل کو مُخاطب کرکے کہا کہ مسٹر اٹارنی جنرل آپ نے ہمیں آرمی ایکٹ کی پوری کتاب نہیں دی۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ صرف متعلقہ باب کی کاپی دی تھی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے دوبارہ بات دہرائی اور کہا کہ یہ بہت بڑا ایشو ہے اگر ہم نے دیکھنا ہے تو ہمارے پاس آرمی ایکٹ اور آرمی رولز ریگولیشن کی پوری کاپی ہونی چاہیے۔
ججز نے دستاویزات کا چند لمحوں کے لیے مطالعہ کیا اور چیف جسٹس کھوسہ نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ آرمی ایکٹ کی شِق 255 میں تو صرف اُن لوگوں کا لکھا ہے جنہیں سروس پر بحال کر کے سزا سُنائی جاتی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ آرمی چیف کی تین سال کی مُدت پوری ہوتی ہے تو وہ گھر جاتا ہے یا افسر رہ سکتا ہے؟ چیف جسٹس نے ایک اور سوال کرتے ہوئے پوچھا کہ کہاں لکھا ہے کہ آرمی چیف کے عہدے کی معیاد تین سال ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آرمی چیف کے عہدے کی معیاد نوٹیفکیشن میں طے کر دی جاتی ہے۔
24987/
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دئیے کہ یعنی قانون میں آرمی چیف کی ملازمت کے لیے کوئی مخصوص مُدت نہیں طے ہے۔ جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل نے پھر اعتراض کیا کہ ہمارے پاس رولز کا صرف مخصوص باب ہے اور پوری کتاب نہیں ہے۔
اب جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ یہ کتاب کہاں سے ملے گی؟ اٹارنی نے جواب دیا کہ یہ کتاب مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہے۔ اب پورے کورٹ روم میں بُلند قہقہ لگا۔
تین رُکنی بینچ کے سربراہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اِس موقع پر اہم ریمارکس دئیے کہ یہ ایکسٹینشن کا معاملہ اصل میں ہے کیا؟ ماضی میں فوجی آمر خود کو ایکسٹینشن دیتے رہے ہیں، اب یہ معاملہ اُٹھایا ہے تو دیکھتے ہیں کہ یہ معاملہ قانون کے مُطابق کیا ہے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ فوجی افسران کی ملازمت کی عُمر کے بارے میں کہیں کُچھ لکھا ہے؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جی ہاں کرنل کی ملازمت کی عُمر پچاس سال، بریگیڈیر کی 52 سال، میجر جنرل کی 55 اور لیفٹینٹ جنرل کی 57 سال عُمر طے ہے۔
اِس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آرمی چیف کی ملازمت کی مُدت بھی طے ہے؟ اٹارنی جنرل نے نفی میں جواب دیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ یہ قانون پھر کیسے طے کرتا ہے کہ آرمی چیف کی ملازمت کی مُدت تین سال ہو گی؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ یہاں قانون خاموش ہے۔
اٹارنی جنرل نے بات آگے بڑھاتے ہوئے دلیل دی کہ آپ آرمی چیف کی تعیناتی کو ہی ازسرِ نو تعیناتی بھی کہہ سکتے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دئیے کہ صرف مُلک حالتِ جنگ میں ہو تو کسی افسر کو بحال یا سروس جاری رکھنے کا کہا جاسکتا ہے اور وہ بھی مخصوص ایک سے دو ماہ کے لیے۔
24966/
جسٹس منصور علی شاہ کا مزید کہنا تھا کہ کسی بھی فوجی افسر کی ریٹائرمنٹ کو زیادہ سے زیادہ عارضی طور پر مؤخر کیا جا سکتا ہے۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جسٹس منصور علی شاہ کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ آپ جنگ کی صورت میں ریٹائرڈ افسران کو بحال کر کے ڈیوٹی پر واپس بھی بُلا سکتے ہیں۔
چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ یہ سب رولز تو آرمی چیف کے ماتحت فوجی افسران کے لیے ہیں اور آپ آرمی ایکٹ کے جِس رول دو سو پچپن میں ترمیم کر کے لے آئے ہیں وہ تو آپ کے کیس سے متعلقہ ہے ہی نہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے آبزرویشن دی کہ آئین صرف آرمی چیف کی تعیناتی کی بات کرتا ہے ازسرِ نو تعیناتی کا نہیں کہتا۔
جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل نے جسٹس منصور کا ساتھ دیتے ہوئے کہا کہ یہ آرمی چیف کی ابتدائی تعیناتی تو ہے لیکن ازسرِ نو تعیناتی نہیں ہے۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اِس دوران اٹارنی جنرل پر ایک اور قیامت ڈھا دی کہ آپ ابھی تک ہمیں آئین اور قانون میں موجود سکیم نہیں سمجھا سکے۔ یعنی وہ اٹارنی جنرل کو بتا رہے تھے کہ اٹارنی جنرل صُبح کے پچ پر تو کھڑے ہیں لیکن اسکور صفر ہے۔
24944/
یہ بحث جاری تھی کہ تین رُکنی بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ایک بجے تک بریک کا اعلان کر دیا۔
کمرہِ عدالت سے باہر نکلتے ہی تحریکِ انصاف کے رہنما ندیم افضل چن سے سامنا ہوا تو ہنستے ہوئے ندیم افضل چن سے پوچھ لیا کہ چن صاحب جو ترمیم آپ نے کل فوجی ایکٹ میں کی وہ تو آپ کے کیس سے متعلقہ ہی نہیں نکلی، اب کیا کریں گے؟ ندیم افضل چن نے حسبِ روایت اونچا قہقہ لگا کر جواب دیا کہ یار وہ پنجابی میں کہاوت ہے ساری رات لسی بناتے رہے اور صُبح پتہ چلا برتن میں پانی تھا۔
بریک سے واپس آکر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو حُکم دیا کہ وہ فوجی ادارہ، قوانین اور معاملات کی سکیم سمجھائیں ورنہ بات نہیں بنے گی۔
اٹارنی جنرل نے معزز ججز کو بتایا کہ فوجی افسر کا رینک اور آرمی چیف ہونا دو مُختلف چیزیں ہیں۔ اگر آپ نے فوجی افسر کو دیکھنا ہے تو آرمی ایکٹ سامنے رکھ کر دیکھیں گے اور اگر آرمی چیف یعنی جنرل کو دیکھیں گے تو آئین کی کتاب سامنے رکھیں گے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اُٹھایا کہ کیا آرٹیکل 243 کے تحت اگر ایک آرمی چیف ریٹائر ہو گا تو کیا اُس ریٹائر افسر کو دوبارہ تعینات کیا جاسکتا؟ کیا ریٹائر فوجی افسر آرمی چیف تعینات کیا جاسکتا؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اگر آئین میں آرمی چیف کی مُدتِ ملازمت طے نہیں تو اِس کا مطلب ہوا وہ تاعُمر آرمی چیف رہ سکتا ہے اِس لیے وہ مُدت ہم طے کرتے ہیں۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مُخاطب کرکے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب یہ کورٹ آف لا ہے اور یہاں شخصیات کی اہمیت نہیں اگر وہ قانون کے مُطابق ٹھیک ہوں گے تو ہم کہیں گے ٹھیک ورنہ ہم ٹھیک نہیں کہہ سکتے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ سر قانون کافی لچکدار ہوتا۔ جسٹس منصور نے اٹارنی جنرل کیپٹن (ر) انور منصور کو جواب دیا کہ لچکدار کا بعد میں بتائیں پہلے قانون تو دکھائیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ قانون میں ایسی کوئی شِق ہے کہ اگر کوئی افسر بہت شاندار کیرئیر کا ہو اور بہت قابل ہو اور آپ اُس کو سروس جاری رکھنے کے لیے اُس کی ریٹائرمنٹ آگے کردیں۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ نہیں سر آرمی ایکٹ میں ایسا کُچھ نہیں ہے۔ اِس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آرمی ایکٹ کہتا ہے کہ جو آرمی رولز ریگولیشنز بنیں گی وہ آرمی ایکٹ میں موجود شقوں کو سامنے رکھ کر ہی بنیں گی۔
چیف جسٹس نے اب آرمی ایکٹ سے نِکل کر اٹارنی جنرل کو آرمی رولز ریگولیشنز سے دلائل دینے کو کہا۔ اِس دوران چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی آواز آئی اوہ ہو۔ یہ تو رول 105 کہتا کہ جو افسر ریٹائر ہو گا اُس کو فوری ریلیز اور ڈسچارج کیا جائے گا۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ رول 255 کہتا کہ اگر کوئی فوجی افسر ریٹائر ہو تو وہ پھر بھی سروس جاری کر سکتا ہے اور وفاقی حکومت کو یہ بھی اختیار ہے کہ وہ کسی خاص قسم کے حالات میں کسی افسر کی ریٹائرمنٹ مؤخر کرسکتی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دئیے کہ آپ افسر کو روک سکتے ہیں لیکن مُختصر مُدت کے لیے۔ چیف جسٹس کھوسہ نے ریمارکس دئیے کہ جنگ ناگُزیر ہو یا حالتِ جنگ میں ہوں تو پھر آپ ریٹائر افسران کو بحال کرسکتے ملازمت پر یا ریٹائرمنٹ کو موخر کرسکتے۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جرنیل کی ریٹائرمنٹ کی کوئی عُمر اور ملازمت کی کوئی معیاد مُقرر نہیں ہے۔
24843/
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آرمی چیف اور جرنیل میں کیا فرق ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جرنیل رینک ہے اور آرمی چیف عہدہ ہے۔ جسٹس منصور نے پوچھا کہ آرمی چیف کون تعینات کرتا ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا صدر، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دئیے اگر تعیناتی صدر کرتا ہے تو پھر وزیر اعظم یا وفاقی حکومت اُس کے لیے مُدت طے نہیں کرسکتی۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سوال پوچھا کہ آپ نے کہاں طے کر لیا عہدے کی معیاد تین سال ہے؟ ورنہ ایسا لگتا ہے جرنیل تاحیات آرمی چیف رہ سکتا۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اِس کے لیے ایک کنونشن ہوتا ہے جِس میں مُدت طے کردی جاتی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ اگر کنونشن کے بعد بھی آرمی چیف ریٹائر نہ ہو تو؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ عام طور پر ایسا نہیں ہوتا اور اگر وہ ریٹائر ہوجائے تو آپ اُس کو دوبارہ آرمی چیف بھی بنا سکتے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اِس موقع پر انتہائی دلچسپ ریمارکس دئیے اور کہا کہ اٹارنی جنرل آپ کا مطلب ہے وزیراعظم پچھلے دس سالوں سے گھر بیٹھے ریٹائرڈ جرنیلوں میں سے کسی کو بھی گھر سے بُلا کر آرمی چیف بنا سکتے۔
اٹارنی جنرل نے لُقمہ دیا جی بالکل! وزیراعظم ایسا کرسکتے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل کو مُخاطب کرکے کہا ویسے تو آئین میں یہ بھی درج نہیں کہ آرمی چیف ہونے کے لیے فوجی ہونا لازمی ہے، کسی سویلین کو بھی فوجی سربراہ بنایا جاسکتا یہاں تک کے اٹارنی جنرل کو بھی آرمی چیف بنایا جاسکتا۔
اِس موقع پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آرمی چیف کی معیاد ملازمت کل رات بارہ بجے ختم ہوجائے گی؟ اٹارنی جنرل نے ہاں میں جواب دیا تو چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ پھر تو یہ معاملہ جلدی نمٹانا ہو گا۔ چیف جسٹس نے دو بجکر بیس منٹ پر ایک بار پھر 20 منٹ کی بریک کا اعلان کردیا۔
بریک سے واپسی پر ججز کا موڈ کُچھ بدلا ہوا محسوس ہوا، خصوصاً چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو کل ہونے والے کابینہ کے اجلاس اور نئے سرے سے تعیناتی کا عمل مُکمل کرنے پر دلائل دینے کا کہا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ اب آپ آرمی ایکٹ کے دو سو پچپن کو نکال کر صرف آرٹیکل دو سو تینتالیس کے تحت ازسرِ نو تعیناتی کرنے جارہے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا جی ہاں! چیف جسٹس نے آرمی چیف کی مُدتِ ملازمت میں توسیع کی نئی کاروائی کی فائل پڑھتے ہوئے برہمی کا اظہار کیا اور سوال پوچھا کہ کسی نے زحمت کی کہ یہ دیکھ لیتا کیا بھیج رہا ہے، کِس کو بھیج رہا ہے اور کون دستخط کر رہا ہے۔
چیف جسٹس نے انکشاف کیا کہ کابینہ وزیراعظم کو آرمی چیف کی تعیناتی کی سمری بھیج رہی ہے اور وزیراعظم صدر کو آرمی چیف کی ازسرِ نو تعیناتی کی ایڈوائس بھیج رہے ہیں اور صدر کے دستخط سے ایکسٹینشن کا نوٹیفکیشن جاری ہو رہا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال پوچھا کہ اگر ایک افسر ریٹائر نہیں ہوتا تو وہ کہاں جاتا ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جب تو وہ کمان کی چھڑی دوسرے افسر کو نہیں دیتا وہ آرمی چیف رہے گا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک طرف آپ کہتے ہیں کہ جرنیل کبھی ریٹائر نہیں ہوتا اور دوسری طرف آپ کہہ رہے کہ کمان دے کر ریٹائر ہو جاتا اور پھر آپ کہہ رہے کہ ریٹائر کو وزیراعظم دوبارہ تعینات کر سکتا ہے، یہ کنفیوژن دور کریں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے برہمی کا اظہار کرتا ہوا کہ یہ آپ کیا اصطلاح استعمال کررہے، ایک سمری میں تعیناتی دوسری میں ازسرِ نو تعیناتی اور نوٹیفکیشن میں مُدتِ ملازمت میں توسیع کا لکھ رہے۔ یہ آخر ہو کیا رہا ہے؟ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اِس موقع پر کہا کہ افواجِ پاکستان ایک قابلِ احترام ادارہ ہے۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مزید ریمارکس دئیے کہ آرمی چیف ایک قابلِ احترام شخص ہیں جِن کو آپ لوگوں نے شٹل کاک بنا کر رکھ دیا ہے۔
چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ یوں تو کوئی اسسٹنٹ کمشنر کی تعیناتی نہیں کرتا جیسے آپ آرمی چیف کی تعیناتی کر رہے۔
چیف جسٹس نے اِس موقع ایک مثال دی کہ انہوں ( چیف جسٹس) نے نیب چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ دیدار حسین شاہ کی تعیناتی کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ تحریر کیا تھا اور اُس میں لکھا تھا کہ جسٹس دیدار حسین شاہ ایک انتہائی قابلِ احترام اور اچھی ساکھ کے حامل جج تھے لیکن نیب اور حکومت نے اُن کی تعیناتی کے عمل میں ایسی بےقاعدگیاں کردیں کہ اُنہیں ہٹانا پڑ رہا ہے جِس سے ایک اچھے خاصے عزت دار شخص کی بے توقیری ہورہی۔
https://www.youtube.com/watch?v=y0Z2T1QwbQw&t=2s
چیف جسٹس نے حکومت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم سمجھے تھے ساری کابینہ بیٹھی ہے دماغ جوڑیں گے تو کوئی اچھا حل نکال کر لائیں گے لیکن آپ ہمارے سامنے یہ لے آئے ہیں؟ اِس موقع پر جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ اگر آرمی چیف نے انتیس نومبر کو ریٹائر ہونا تھا تو اُس دِن سے ہی اُنکے نئے عہدے کی معیاد کیسے شروع ہوگئی؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا اُنکی معیاد ختم کرکے اٹھائیس نومبر تک کم کردی گئی تھی اور پھر اُنتیس نومبر کو اُنکو نئی تعیناتی دی گئی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اِس جواب پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ آپ بالکل نئی بات کررہے ہیں۔ چیف جسٹس کھوسہ نے اِس موقع پر کہا کہ سمری، ایڈوائس اور نوٹیفکیشن تینوں پر مُختلف الفاظ ہیں۔۔ یہ دستاویزات جنہوں نے بنائی اور چیک کیں اُن سب کی ڈگریاں چیک کروائیں کہ وہ واقعی پڑھے لکھے ہیں۔ چیف جسٹس نے حکومت کو ایک دِن کی مہلت دیتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ ہم نے قانون کی عملداری کا حلف اُٹھا رکھا ہے اگر کل تک آپ تصیح کرکے ناں لائے تو ہم فیصلہ قانون کے مُطابق سُنانے کے پابند ہوں گے۔
اِس موقع پر آرمی چیف کے وکیل اور سابق وزیرِ قانون بیرسٹر فروغ نسیم روسٹرم پر آئے تو پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین نے کھڑے ہو کر اعتراض کیا کہ اِن کے پاس لائسنس نہیں ہے یہ دلائل نہیں دے سکتے۔ چیف جسٹس نے فروغ نسیم کو ہدایت کی کہ وہ اپنا لائسنس بحال کروانے کی کوشش کریں ورنہ کل کوئی اسسٹنٹ لے آئیں جو اُن کی طرف سے دلائل دے اور وہ زیادہ سے زیادہ اتنی رعایت دے سکتے کہ وہ اُس جونئیر وکیل کے ساتھ کھڑے ہوکر اُس کو ہدایات دے سکتے۔
سماعت کل کے لیے مُلتوی ہوئی تو کمرہِ عدالت سے باہر نکلتے ہی خبر ملی کے جنرل مُشرف کے خلاف سنگین غداری کے مُقدمے میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے خصوصی عدالت کو فیصلہ سُنانے سے روک دیا ہے۔ صحافی ایک دوسرے سے مذاق کرنے لگے کہ حکومت ایک ریٹائرڈ آرمی چیف کو تو بچانے میں کامیاب ہوگئی اب دیکھتے ہیں ایک حاضر سروس چیف کی ایکسٹینشن بھی بچا پاتی ہے یا نہیں۔