جام کمال کی کارکردگی پچھلے تمام وزرا اعلیٰ سے بہتر تھی۔ 2020-21 کے بجٹ سے صوبہ بھر میں تقریباً 2200 کلو میٹر سڑکیں تعمیر کی گئیں جب کہ 2021-22 میں 3000 کلو میٹر سڑکیں تعمیر کی جا رہی ہیں۔ ٹیلی ہیلتھ سے دور دراز کے علاقوں میں مریضوں کا علاج، نیشنل ہائی ویز پر حادثات کیے لئے ایمرجینسی سینٹرز، ہر ڈسٹرکٹ میں فٹبال سٹیڈیم، مختلف اضلاع میں سکول، کالج، ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال، سپورٹس کمپلیکس، سٹیڈیمز، خواتین کے لئے وومین سنٹرز، کلچر سنٹر اور کوئٹہ شہر میں بے تحاشہ ترقیاتی کام جس نے صوبائی ہیڈکوارٹر کی شکل بدل دی۔ ان تمام ترقیاتی کاموں کے باوجود جام کمال صوبے میں ایک ناپسندیدہ شخص رہے، ان کی پارٹی کے بیشتر ارکان ناخوش اور بلوچستان کے عوام میں بھی انہیں کوئی پذیرائی نہیں ملی۔
سنی سنائی باتیں ہیں کہ جام صاحب ایک ڈکٹیٹر طبعیت شخص تھے، وہ کسی سے نہیں ملتے تھے، چھوٹی چھوٹی باتوں پر اعلیٰ افسران کو جھاڑ دیتے تھے، ان کے تبادلے کر دیا کرتے تھے، انہوں نے اپنے آپ کو وزیر اعلیٰ ہاؤس میں بند کر لیا تھا، صرف کچھ خاص دوستوں کو اُن تک رسائی تھی، تمام فوائد، ٹھیکے من پسند افراد کو دیے جا رہے تھے اور پارٹی ممبران سے کوئی مشاورت بھی نہیں کی جا رہی تھی۔
جام صاحب کے خلاف اپوزیشن نے ان ہی کی پارٹی بلوچستان عوامی پارٹی کے ناراض اراکین کو ساتھ ملا کر تحریک عدم اعتماد پیش کی، وہ تحریک عدم اعتماد واپس کر دی گئی کہ کچھ تیکنیکی غلطیاں تھیں؛ کہا یہ جاتا ہے کہ جام کمال نے پندرہ دنوں میں با عزت جانے کی حامی بھری تھی اور اسی وجہ سے تحریک عدم عتماد واپس کر دی گئی تھی۔ جام صاحب نے اسلام آباد کے چکر لگائے، کہیں سے اُنہیں یقین دہانی کرائی گئی کہ وہی وزیر اعلیٰ رہیں گے۔ وہ واپس کوئٹہ آئے اور اپنے وعدے سے مکر گئے۔ دوسری مرتبہ ان کی پارٹی کے ناراض ارکان نے اپوزیشن کو ملا کر خود تحریک عدم اعتماد پیش کی۔ پھر جام صاحب نے ایک ٹوئیٹ کی کہ وہ پارٹی کی صدارت سے استعفا دے رہے ہیں اور چند گھنٹوں میں اُسے واپس ڈلیٹ کر دیا۔ اگلے روز انہوں نے یہ کہا کہ ٹوئیٹ کی کوئی قانونی حیثیٹ نہیں ہوتی، جب تک کہ وہ اپنا استعفا الیکشن کمیشن کو نہ بھیجیں اُس وقت تک وہی پارٹی کے صدر رہیں گے (یقیناً انہیں اس مرتبہ بھی کہیں سے یہ یقین دہانی ملی کہ انہیں کچھ نہیں ہو گا)۔ اب جام صاحب استعفا دے چکے اور بلوچستان میں نئی حکومت بننے جا رہی ہے۔
ہم سب یہ بات جانتے ہیں کہ بلوچستان عوامی پارٹی کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے، یہ صوبے کے مفاد پرستوں کا ایک ٹولہ ہے۔ اس پارٹی کا قیام راتوں رات ہوا۔ یہ پچھلے الیکشن میں سلیکٹ ہوئے اور جب یہ پارٹی بنی تو عبدالقدوس بزنجو خود اس پارٹی کے صدر بننا چاہتے تھے اور وہ اپنے آپ کو ہی وزیر اعلیٰ کا امیدوار بھی سمجھتے تھے لیکن کسی نے انہیں خاموش رہنے کا کہا اور انہوں نے سر جھکا کر خاموشی اختیار کر لی۔ عبدالقدوس اور ان کے حمایتی وقتاً فوقتاً جام صاحب کو گرانے کے لئے چھوٹی موٹی کوششیں کیا کرتے تھے لیکن کامیابی اُنہیں اُس وقت ملی جب یقین دہانی کروانے والوں نے جام صاحب کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا۔ اب یقین دہانی کروانے والوں نے پچھلی تین نسلوں سے اطاعت کرنے والے کو کیوں نکالا؟ یہ ایک دلچسپ سوال ہے۔