ہم انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی میں پیچھے کیوں؟

ہم انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی میں پیچھے کیوں؟
اگر ہم پاکستان میں انجینئرنگ کی تعلیم کا موازنہ ترقی يافتہ ممالک کے نظام سے کریں تو واضح فرق نظر آتا ہے۔ پاکستان میں انجینئرنگ کی تعلیم میں زیادہ توجہ تھیوری اور سلیبس پر دی جاتی ہے۔ عملی کام اور پریکٹیکل کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ ڈاکٹرز کی ہاؤس جاب کی طرز پر انجینئرز کی لازمی انٹرن شپ یا ٹریننگ کا کوئی نظام نہیں ہے۔ عملی تجربے کے بغیر انجینئرز کو ڈگریاں تھما کر مارکیٹ میں دھکیل ديا جاتا ہے۔ نتیجے کے طور پر اول تو کوئی انہيں نوکری نہیں دیتا اور اگر دے بھی دے تو انہیں افسران اور نیچے کے ملازمین کی طرف سے شدید تضحیک اور طعنے بازی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے برعکس ترقی یافتہ ممالک میں انجینئرز کو تھیوری کے ساتھ عملی اور اپنے ہاتھوں سے کام کرنے کی تربیت بھی دی جاتی ہے اور لازمی انٹرن شپ بھی کروائی جاتی ہے۔ ان کا انجینئر ڈگری کے ساتھ عملی کام کا مکمل تجربہ حاصل کر کے بھرپور اعتماد کے ساتھ جاب مارکیٹ میں جاتا ہے۔

نصابی کمزوریاں

ہمارا سلیبس پرانا ہے اور اس کو اپ ڈیٹ کیے بغیر سالہا سال پڑھایا جاتا ہے۔ جدید سافٹ ویئرز اور ہائی ٹیکنالوجی کے بارے میں کوئی تربیت نہیں دی جاتی۔

ہمارے نظام میں ایک اور بڑی خامی یہ بھی ہے کہ ہماری انجینئرنگ کی تعلیم اور انڈسٹری میں زیادہ توجہ آپریشن اور مینٹیننس پر دی جاتی ہے۔ تخلیق اور ڈیزائننگ میں ہم بہت پیچھے ہيں۔ اسی وجہ سے مشینری اور ٹیکنالوجی کے استعمال، آپریشن اور مینٹیننس میں تو ہمارے انجینئرز باکمال ہیں مگر ڈیزائننگ اور تخليق کے عمل سے کوسوں دور ہيں۔

سوشل سائنسز کا نصاب میں نہ ہونا بھی ایک وجہ ہے

ایک اور سب سے بڑی کمی یا خامی سلیبس میں سوشل سائنسز کا نہ ہونا بھی ہے۔ آج کے جدید دور میں کمیونیکشن اور سوشل سائنسز کے مضامین کی بنیادی معلومات کا ہونا بھی بے حد ضروری ہے۔ معاشرے کی ضروریات کے مطابق تحقیق اور ایجادات کے عمل کے لئے بنیادی علوم کی معلومات کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ انجینئرز کے ذہنوں کو کشادہ اور معاشرے کے لئے مفید بنانے کی ضرورت ہے۔ ان کو معاشرے میں فعال اور متحرک کردار ادا کرنے کے قابل بنانا چاہیے۔ عصر حاضر کی مشکلات، تقاضوں اور ان کے ٹھوس حل نکالنے کے لئے سلیبس میں ترامیم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

پاکستان میڈیکل کونسل اور دیگر باڈیز کے برعکس پاکستان انجینئرںگ کونسل کی کارکردگی بھی غیر تسلی بخش ہے۔ کونسل انجینئرز کی انٹرنس شپ، پے سکیل اور دیگر مفادات و معاملات کی بہتری اور دیکھ بھال کے لئے زیادہ سرگرم و فعال نہيں ہے اور نہ ہی سرکاری و پرائویٹ اداروں میں انجینرز کی لازمی تقرریوں پر سختی سے عمل کروا پاتی ہے۔

قارئین، معاشی انقلاب اور ترقی کی منازل طے کرنے کے لئے انجینئرنگ کی تعلیم اور انجینئرز پر خصوصی توجہ دینا اشد ضروری ہے۔

مصنف پیشے سے انجینئر ہیں اور ساتھ ایم بی اے بھی کر رکھا ہے- لکھنے سے جنون کی حد تگ شغف ہے اور عرصہ دراز سے مختلف جرائد اور ویب سائٹس میں لکھ رہے ہیں