تشخیص، دوا اور دیکھ بھال میں غفلت لاکھوں مریضوں کی جان لے رہی ہے

غیر محفوظ علاج معالجہ سے ہونے والی اموات دنیا بھر میں کل سالانہ اموات کے 10 بڑے اسباب میں شامل ہو چکی ہیں۔ ان میں تقریباً 83 فیصد ضرر قابل اجتناب یعنی اوائڈیبل ہے۔ 2013 میں دنیا بھر میں 42 کروڑ افراد اسپتالوں میں داخل ہوئے جن میں سے 10 فیصد ضرر رساں حوادث کی زد میں آئے۔

تشخیص، دوا اور دیکھ بھال میں غفلت لاکھوں مریضوں کی جان لے رہی ہے

گذشتہ اتوار دو خبریں نظر سے گزریں۔ پہلی خبر کا تعلق شوگر کے ان درجنوں مریضوں سے تھا جن کی بینائی ایواسٹن نامی دوا کے مبینہ غیر معیاری انجیکشن آنکھوں میں لگانے سے ضائع ہو گئی ہے۔ دوسری دلخراش خبر کے مطابق قصور کے ایک پرائیویٹ اسپتال میں 22 سالہ سدرہ کے یہاں سیزیرین سیکشن سے تیسری بیٹی نے جنم لیا، آپریشن کے دوران ہوئی پیچیدگیوں کے باعث اسے جنرل اسپتال لاہور شفٹ کر دیا گیا جہاں وہ کچھ دن انتہائی نگہداشت میں رہی۔ بروز جمعہ اس نے دوسری منزل کے باتھ روم کی کھڑکی سے باہر چھلانگ لگا دی۔ نتیجے میں اسے شدید دماغی چوٹیں آئی ہیں۔ آئندہ 48 گھنٹے میں فیصلہ ہو جائے گا کہ وہ زندہ بچتی ہے یا نہیں۔

آنکھوں والے کیس میں حکومت پنجاب نے غیر معمولی پھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انجیکشن کی فروخت پر پابندی عائد کر دی، کئی ڈرگ انسپکٹرز معطل کئے، ملوث ڈاکٹروں کے خلاف کارروائی کا اعلان اور متاثرین کو مفت علاج کی پیش کش کی۔ خودکشی کا حادثہ جو بظاہر بعد از ولادت ڈپریشن کا کیس لگتا ہے، اس واقعے کو 48 گھنٹے سے زیادہ گزر چکے ہیں لیکن مزید کوئی خبر موصول نہیں ہوئی۔ ممکنہ طور پر مریضہ اس الم زدہ جہان سے رخصت ہو چکی ہے۔ سینیئر ڈاکٹروں کی سرکردگی میں تحقیقاتی کمیٹیاں اپنا کام کر رہی ہیں لیکن ان دونوں خبروں سے نظام صحت میں قدم قدم پر حفاظتی بندوبست (سیفٹی) کی اہمیت اور ضرورت کا احساس دوچند ہوتا ہے۔

عہد حاضر کا کوئی فرد ایسا نہیں جس کا سابقہ نظام صحت سے نہیں پڑتا، خواہ وہ کریانہ کی دکان سے پیراسیٹامول کا پتا خریدنے کا معاملہ ہو یا مصنوعی کولہے یا گھٹنے کی تنصیب کا۔ الٹرا ساؤنڈ، ایم آر آئی مشینوں سے تشخیص سے لے کر دل کے بائی پاس تک، اعضا کی پیوند کاری، کینسر کی کیمو تھراپی اور ناقابل علاج قرار دے کر مریض کی ری ہیبلیٹیشن تک ایک نظام ہے جس میں میڈیکل، نرسنگ، مڈوائفری کالجز، فارماسیوٹیکل انڈسٹری، ادویات کے ریگولیٹر، کلینک، زچہ خانے، اسپتال، پوسٹ گریجویٹ اور ریسرچ انسٹیٹیوٹ، لائسنسنگ کونسل سب آتے ہیں۔ طبی کارکنان میں ایمبولینس ڈرائیور، اسپتال کے خاکروب، ویکسین لگانے والے، وارڈ بوائے، نرس، مڈوائف، ڈاکٹر، پروفیسر، آئی ٹی ماہرین، فارماسسٹ، فزیو تھراپسٹ، بائیو میڈیکل انجینیئر، تھئیٹر اور لیب ٹیکنیشن، منتظمین، ملک ملک گھوم کر خیرات جمع کرنے والے تنخواہ دار افراد، سیاست دان، الغرض جدید طب کے سٹیک ہولڈرز ایک انتہائی پیچیدہ اور گنجلک نظام میں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔

طبی عملہ اس قدر وسیع ہے کہ کچھ ممالک میں سب سے زیادہ افراد کا روزگار اسی شعبہ سے منسلک ہے۔ ترقی یافتہ دنیا اپنی قومی آمدنی کا 10 فیصد سے زیادہ صحت کی مد میں خرچ کرتی ہے۔ لیکن یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اس پورے نظام کا محور و مرکز اس مریض کی ذات ہے جس کی بیماری اور تکلیف ختم یا کم کرنے کے لئے یہ وجود میں آیا ہے۔

انسان خطا کا پُتلا ہے!

1999 کو طب کی دنیا میں اس لئے اہمیت حاصل ہے کیونکہ اس برس امریکہ میں انسٹی ٹیوٹ آف میڈیسن نے اپنی چشم کشا رپورٹ ‘To err is human’ میں انکشاف کیا کہ امریکہ میں سالانہ 44 ہزار سے 98 ہزار افراد محض طبی غلطیوں کے سبب جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

2002 میں ورلڈ ہیلتھ اسمبلی نے مریضوں کی حفاظت (سیفٹی) پر پہلی قرارداد پاس کی۔ پھر دنیا بھر کے وزرائے صحت کو جمع کر کے ان پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی تلقین کی گئی جو علاج کے لئے رجوع کرنے والے مریضوں کے لئے معمولی ضرر، شدید ناقابل تلافی نقصان حتی کہ موت کی وجہ بن سکتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے 17 ستمبر 2019 کو پہلا پیشنٹ سیفٹی ڈے منایا گیا۔

مریضوں کو نقصان کن طریقوں سے پہنچ سکتا ہے؟

طبی نگہداشت میں مریضوں کو نقصان پہنچانے کا سب سے عام ذریعہ دوا سے متعلق بھول چُوک ہے۔ اگلا نمبر سرجری میں ہونے والی خطاؤں کا ہے۔ علاج گاہوں میں بھولے سے لگنے والے ضدی انفیکشن، نادرست تشخیص، مریضوں کا گر جانا، بستر پر لیٹنے سے بننے والے زخم، مریض کی غلط شناخت، غیر محفوظ منتقلی خون اور عملے کی غفلت کی وجہ سے مریضوں میں خون کے لوتھڑے جم جانا ضرر یا موت کے نمایاں ترین اسباب ہیں۔

وہ غلطیاں جن کی کوئی گنجائش نہیں

نیور ایونٹ کا تصور 2001 سے چلا آ رہا ہے جن سے مراد وہ حادثات ہیں جو نظام صحت میں وقوع پذیر ہو کر نا صرف مریض کو مشکل میں ڈال دیتے ہیں بلکہ ڈاکٹرز اور نرسنگ اسٹاف سمیت جملہ عملے پر دیرپا منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔

نیور ایونٹس کی فہرست میں مریض کی غلط شناخت، غلط تشخیص مثلاً کینسر مسٹر علی کو تھا لیکن رپورٹ خلط ملط ہو جانے سے انہیں ڈسچارج کر دیا گیا جبکہ مسز احمد کو کیمو تھراپی شروع کرا دی گئی، غلط طرف سرجری مثلاً ناکارہ دائیں گردے کی جگہ بائیں جانب کے صحت مند گردے کو نکال کر مریض کو تاعمر ڈایالائسس کا محتاج کر دینا، صحت مند بیضہ دانی نکال کر مریضہ کو بانجھ کر دینا، غلط کولہے یا شانے میں مصنوعی جوڑ لگا دینا، غلط سائز کا امپلانٹ یا لینس لگا دینا، تعفن زدہ ٹانگ یا بازو چھوڑ کر صحت مند عضو کاٹ دینا، سرجری کے دوران تولیہ، نشتر یا قینچی پیٹ میں چھوڑ دینا، غیر موافق خون لگا دینا جس کا ری ایکشن مہلک ہوتا ہے، غلط دوا دے دینا، انسولین یا پوٹاشیم جیسی تیز ادویات کی غلط اور جان لیوا خوراک دینا، غلط راستے سے دوا دینا جیسے عضلاتی یا وریدی دوا کو ریڑھ کی ہڈی کے ذریعے دماغی سیال میں داخل کر دینا، ایک ہی سرنج یا وائل سے کئی مریضوں کو انجیکشن لگا دینا، الرجی لکھی ہونے کے باوجود وہی دوا نسخے میں لکھنا، فراہم کرنا یا لگا دینا، جیسے کیسز شامل ہیں۔

ان گھمبیر خطاؤں سے بہت آسانی سے بچا جا سکتا ہے اگر ہر مرحلے پر مریض، اس کی الرجی اور بلڈ گروپ کی شناخت کی جائے، انہیں شناختی بریسلیٹ پہنائے جائیں، آپریشن کے مقام پر نشان لگا دیا جائے، آپریشن کی اجازت (کنسنٹ) کی متعد دفعہ تصدیق کر لی جائے۔

اسپتالوں کے فرش یا سیڑھیوں پر پھسلن، بیڈ یا سیڑھیوں کے جنگلے میں گلا پھنس جانے یا گر جانے کے امکانات۔ گرم پانی سے مریض کا جھلس جانا، کرنٹ لگ جانا وغیرہ کا بھی اسپتالوں میں کوئی تصور نہیں ہونا چاہئیے۔

نفسیاتی علاج گاہوں میں باتھ روم میں ایسی اشیا کی موجودگی جن سے مریض خود کو زخمی کر سکتے ہیں یا پھانسی لگا سکتے ہیں۔ غیر محفوظ کھڑکیاں جن سے کودا جا سکے۔ ان کی بھی بالکل گنجائش نہیں۔

طبی غلطی میں ملوث سٹاف پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟

دنیا بھر میں طبی کارکنان بنیادی طور پر مریض کی جان بچانے کے اعلیٰ جذبے سے سرشار ہوتے ہیں۔ کسی غیر متوقع اور ناپسندیدہ واقعے میں ملوث ہو جانے کے ان پر بہت منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ انہیں قانونی کارروائی، لائسنس کی منسوخی، بے روزگاری اور بدنامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ بار بار خود کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں، نفسیاتی امراض کا شکار ہو جاتے ہیں، ان کی خانگی اور پیشہ ورانہ زندگی تباہ ہو جاتی ہے۔ اکثر کے حواس پر خودکشی کا خیال سوار رہتا ہے۔ کچھ کر بھی گزرتے ہیں۔

یہ بحران کتنا بڑا ہے؟

طبی نظام میں آئے ہوئے مریض کو پہنچنے والا نقصان کتنا بڑا بوجھ ہے، اس کے اعداد و شمار دھماکہ خیز ہیں۔ غیر محفوظ علاج معالجہ سے ہونے والی اموات دنیا بھر میں کل سالانہ اموات کے 10 بڑے اسباب میں شامل ہو چکی ہیں۔ ان میں تقریباً 83 فیصد ضرر قابل اجتناب یعنی اوائڈیبل ہے۔ 2013 میں دنیا بھر میں 42 کروڑ افراد اسپتالوں میں داخل ہوئے جن میں سے 10 فیصد ضرر رساں حوادث کی زد میں آئے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ان واقعات میں سے دو تہائی غریب اور درمیانے ممالک میں رونما ہوئے۔ ان بدنصیب اقوام میں گھٹیا اور غیر معیاری نگہداشت 10 سے 15 فیصد اموات کا باعث بن رہی ہے۔ صرف امریکہ میں طبی اغلاط کے ضرر سے ہونے والے معاشی نقصان کا تخمینہ ایک کھرب ڈالر لگایا گیا ہے۔ تیسری دنیا جہاں انسانی جان کی کوئی قدر نہیں، وہاں کیا تین بچیوں کو چھوڑ کر اسپتال سے کودنے والی غریب سدرہ کی جان کی قیمت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے؟

صرف ادویات میں غلطی سے ہونے والے ضرر کی لاگت 42 ارب ڈالر ہے۔

کون سے خطے سب سے زیادہ متاثر ہیں؟

مؤقر طبی جریدے لینسٹ کے مطابق گھٹیا نظام صحت سے سب سے زیادہ اموات جنوبی ایشیا میں ہوتی ہیں جبکہ ایک دوسری تحقیق بیان کرتی ہے کہ جنگ، قحط، ہجرت، اندرونی ہجرت اور سیاسی عدم استحکام ان اموات میں بہت زیادہ اضافہ کرتے ہیں۔

عالمی مریض سیفٹی ایکشن پلان 2021-2030

عالمی ادارہ صحت نے ناکافی سیفٹی سے بڑھتے ہوئے حادثات کے تدارک کے لئے 2021 میں ایک 7 نکاتی فریم ورک جاری کیا تھا۔ خلاصہ یہ ہے کہ حکومتیں سب سے پہلے پالیسیاں بنا کر ایک حکمت عملی وضع کریں، سرمایہ اور ریسورسز دستیاب کریں۔ ایک شفاف نظام تشکیل دیں جس میں الزام تراشی کا کلچر نہ ہو۔ یاد رہے کہ طبی خطاؤں کا حل مجرمین کا تعین اور سزائیں یا لائسنس کی منسوخی نہیں۔ اصل جرم نظام کا ہے جو امیر ممالک میں نیا ہے جبکہ غریب ممالک میں موجود ہی نہیں۔ انسانی پہلو یعنی ہیومن فیکٹر کی باقاعدگی سے تربیت کا اہتمام، طبی طریقہ کار کی ہر کڑی میں تحفظ کی موجودگی، ہر مرحلے پر مریض اور ان کے اہل خانہ کی شمولیت اور انہیں مطلع رکھنا، طبی کارکنان کی جدید خطوط پر مسلسل تربیت اور تعلیم، معلومات کی فراہمی، ریسرچ اور رسک سے نمٹنا، قدم قدم پر چیک لسٹ کی موجودگی، تمام سٹیک ہولڈرز کو عمل میں شریک رکھنا اور آپس میں ارتباط و ہم آہنگی کے ذریعے طبی خطاؤں کی شرح میں کمی لائی جا سکتی ہے۔

برطانیہ میں ہر چند ماہ بعد نیور ایونٹس اور ان کی جائے وقوعہ کی فہرست قومی ادارہ صحت کی ویب سائٹ پر شائع ہوتی ہے۔

سیاسی عدم استحکام کے شکار ممالک میں جہاں صحت و تعلیم ریاست کی ترجیحات سے باہر ہیں اور جہاں اپنے سے طاقتور اور دولت مند شخص کے سامنے حق گوئی کا کلچر ناپید ہے، وہاں ان اصلاحات کو رائج کرنا بہت دشوار ہو گا۔