'نواز شریف کو وزیر اعظم بنانے کے لیے سعودی عرب کا دباؤ'

ذرائع کا کہنا ہے کہ اب جو نئی حکومت بنے گی اس میں سعودی ولی عہد کا کردار بہت اہم ہو گا۔ پاکستان میں جو 10 سے 25 ارب ڈالرزسعودی سرمایہ کاری کی بات چل رہی ہے اور آرمی چیف نے بھی بتایا کہ 10 سے 25 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری سعودی عرب سے آئے گی، وہ سرمایہ کاری ابھی نہیں کی جائے گی بلکہ انتخابات کے بعد ن لیگ کی حکومت آنے کی صورت میں ہو گی۔

'نواز شریف کو وزیر اعظم بنانے کے لیے سعودی عرب کا دباؤ'

سعودی عرب اور چین، دونوں ممالک مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کے ساتھ کمفرٹ ایبل محسوس کرتے ہیں جبکہ قطر کے شاہی خاندان کا بھی یہی خیال ہے۔ سعودی عرب، چین اور قطر عمران خان کے ساتھ کام کرنے کے خواہش مند نہیں ہیں۔ نواز شریف کی جانب سے عالمی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ملاقاتیں کی جا رہی ہیں اور امکان ہے کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کے بعد نواز شریف اگلے وزیر اعظم بن جائیں گے۔ یہ دعویٰ کیا ہے صحافی اسد علی طور نے۔

یوٹیوب پر حالیہ وی-لاگ میں اسد طور کا کہنا تھا کہ پاکستان ایسا ملک ہے جس میں مختلف مواقع پر دیگر ممالک کا کردار بہت اہم ہو جاتا ہے، خاص طور پر جب ملک بحران کا شکار ہو۔ چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی دیگر ممالک ایٹمی ملک ہونے کی وجہ سے پاکستان کے بیل آؤٹ کے لیے آگے آتے ہیں اور استحکام لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس وقت بھی پاکستان شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہیں، برآمدات نہیں بڑھ رہیں، ڈالر کی قیمت آئے روز آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہے۔ ڈالر سمگلروں کے خلاف کریک ڈاؤن کر کے اگرچہ وقتی طور پر ڈالر کی قیمت نیچے تو لائی گئی ہے لیکن کتنا عرصہ ایسا رہے گا، کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ اس کے علاوہ الیکشن کا معاملہ ہے، پی ٹی آئی میں استحکام بھی ملکی استحکام کے لیے ضروری ہے۔ ایسے میں عالمی پلیئرز بھی اپنا کردار ادا کرتے نظر آ رہے ہیں۔

پاکستان کے معاملات میں 4 ممالک کا ہمیشہ بہت اہم کردار رہا ہے جن میں متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، برطانیہ اور امریکہ شامل ہیں۔ جب محترمہ بے نظیر بھٹو نے پرویز مشرف سے ڈیل کی تھی جس کے بعد پرویز مشرف کو اقتدار چھوڑنا پڑا تھا، اس میں بھی بے نظیر نے برطانیہ اور امریکہ کی اس وقت کی حکومت سے مدد حاصل کی تھی۔ برطانوی اور امریکی نیشنل سکیورٹی ایڈوائزرز جنرل پرویز مشرف سے مذاکرات کر رہے تھے جس کے بعد بے نظیر کی وطن واپسی ممکن ہو سکی تھی۔ جو بند دروازہ بے نظیر بھٹو نے کھلوایا، اسی راستے سے نواز شریف وطن واپس آئے تاہم میاں صاحب کی واپسی کے لیے سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ مرحوم نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ انہوں نے جنرل مشرف سے بات کی تھی کہ اگر بے نظیر واپس آ رہی ہیں تو نواز شریف کو بھی واپس آنے دیا جائے۔ اس طرح میاں صاحب کی بھی واپسی کا رستہ ہموار ہوا۔

صحافی کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات بھی ویسے ہی ہیں اور میاں نواز شریف اور آصف زرداری صاحب عمران خان کی طرح امیچور سیاست دان بھی نہیں ہیں۔ عمران خان جب حکومت میں آئے تھے تو انہوں نے اپنی تمام تر حمایت جنرل باجوہ کو دے دی اور اس کے لیے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، برطانیہ، امریکہ اور چین کو ناراض کر دیا۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ فوج نے اپنا فراہم کردہ قالین عمران خان کے قدموں کے نیچے سے کھینچ لیا۔ ایسے میں ان کو بچانے کے لیے کوئی بھی ملک آگے نہیں آیا۔ اب عمران خان فوج سے ڈیل مانگ رہے ہیں لیکن کوئی بھی ملک چیئرمین پی ٹی آئی کی مدد کے لیے تیار ہی نہیں۔ جیسے پاکستان کے حالات ہیں تو ایسی ڈیلز میں فوج اور سیاسی قوت کے درمیان کوئی نا کوئی ملک گارنٹر ضرور بنتا ہے اور جو بھی پاور شیئرنگ فارمولا طے پاتا ہے اسی کے مطابق کام ہوتا ہے۔

جنرل مشرف سے ہونے والی ڈیل میں یہ طے کیا گیا تھا کہ انہیں اقتدار سے نکالنے کے بعد ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ جب وہ ملک چھوڑ کر دبئی چلے گئے تو سعودی شاہ عبداللہ نے غالباً 50 ملین ڈالرز انہیں بطور تحفہ دیے جس سے انہوں نے دبئی اور لندن میں اپارٹمنٹس خریدے۔ سعودی شاہ عبداللہ نے ڈیل کروائی تھی تو ان کو ایڈجسٹ بھی انہی نے کروانا تھا۔ حالیہ صورت حال بھی ایسی ہی ہے جس میں سعودی عرب اور دیگر ممالک کا کردار بہت اہم ہو گیا ہے۔

اسد طور کے مطابق چند ماہ قبل کچھ اہم ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ سعودی عرب کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر امریکہ سے واپسی پر لندن میں نواز شریف سے ملے۔ ان کی امریکہ میں ہونے والی ملاقاتوں کے حوالے سے بھی گفتگو ہوئی۔ انہوں نے میاں صاحب کو مبارک باد بھی دی کہ اگلے وزیر اعظم آپ ہوں گے۔ یہ ملاقات غالباً رمضان کے مہینے میں ہوئی تھی۔ اسی ماہ میں برطانیہ کی اسٹیبلشمنٹ کے کچھ اہم لوگوں نے بھی میاں صاحب سے ملاقات کی۔ اس سے قبل انہوں نے نواز شریف سے تب ملاقات کی تھی جب وہ وزیر اعظم تھے۔ اب رابطے بحال کرتے ہوئے انہوں نے میاں صاحب سے دوبارہ ملاقات کی۔ ظاہر ہے کہ انہوں نے ملاقات اسی تناظر میں کی ہو گی کہ اگر نواز شریف پاکستان جاتے ہیں اور اقتدار ن لیگ کے پاس آتا ہے تو برطانیہ کے ساتھ تعلقات کے لیے ان کی کیا پالیسی ہو گی۔

اس کے علاوہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان ایک دورے پر متحدہ عرب امارات میں موجود تھے اور وہاں سابق وزیر اعظم شہباز شریف نے ان سے ملاقات کی۔ شہباز شریف نے شہزاد محمد بن سلمان کو پیغام دیا کہ نواز شریف آپ سے ملاقات کی خواہش رکھتے ہیں تاہم سعودی ولی عہد اس ملاقات کے لیے وقت نہ نکال سکے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ حال ہی میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے لندن کے مختصر دورے کے دوران نواز شریف سے ملاقات کی۔ جب ملاقات کے لیے وقت دیا گیا تو شہباز شریف پہلی فرصت میں لندن واپس پہنچے کیونکہ وہ اس ملاقات کا حصہ بننا چاہتے تھے۔ نواز شریف کے بلاوے کے بغیر ہی شہباز شریف لندن پہنچ گئے اور یہ ملاقات گذشتہ ہفتے کے روز ہوئی۔ یقینی طور پر اس ملاقات میں اہم پہلوؤں پر بات ہوئی ہو گی کیونکہ میاں صاحب کے پاکستان آنے کے اعلان کے بعد سے ان معاملات پر غور و خوض جاری ہے کہ ان کی وطن واپسی کے بعد کیا ہو گا، صورت حال کیسی ہو گی، ان کے ساتھ کیسا سلوک ہو گا، سیاست میں کیا ہو گا، سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پاکستان اور پاکستان میں میاں صاحب کے رول کو کیسے دیکھتے ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اب جو نئی حکومت بنے گی اس میں سعودی ولی عہد کا کردار بہت اہم ہو گا۔ پاکستان میں جو 10 سے 25 ارب ڈالرز سعودی سرمایہ کاری کی بات چل رہی ہے اور آرمی چیف نے بھی بتایا کہ 10 سے 25 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری سعودی عرب سے آئے گی، وہ سرمایہ کاری ابھی نہیں کی جائے گی بلکہ انتخابات کے بعد ن لیگ کی حکومت آنے کی صورت میں ہو گی۔ اسی لیے سعودی عرب چاہتا ہے کہ میاں صاحب کی پاکستان واپسی ہو۔ عمران خان کے ساتھ کام کرنے کے وہ خواہش مند نہیں ہیں۔ چین اور سعودی عرب دونوں ممالک نواز شریف کے ساتھ کمفرٹ ایبل محسوس کرتے ہیں جبکہ قطری شاہی خاندان کا بھی یہی خیال ہے۔ یہ کچھ ایسے عالمی پلیئرز ہیں جو اگر کسی کو سپورٹ کریں تو کہا جا سکتا ہے کہ الیکشن اس انداز میں ہو گا کہ اس میں اکثریت اسی پارٹی کو ملنے کا امکان ہوتا ہے۔

ایسی ہی گارنٹیز اور ڈیل کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ نواز شریف کو وزیر اعظم بننے سے نہیں روکا جا سکے گا۔ تاہم میاں صاحب جو بیانیہ لے کر آئے ہیں اس سے ن لیگ پریشان ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ اس معاملے کو کیسے دیکھتی ہے اور عالمی اسٹیبلشمنٹ اور اہم شخصیات سے جو ملاقاتیں ہو رہی ہیں وہ کیسے اس بیانیے کے چلتے ہوئے کوئی درمیانی راستہ نکال کر معاملات کو طے شدہ راستے کے مطابق مناسب رخ دیتے ہیں۔