بندر کے ہاتھ استرا، اور کم عقلوں کے ہاتھ میں سمارٹ فون نہیں دینا چاہیے

بندر کے ہاتھ استرا، اور کم عقلوں کے ہاتھ میں سمارٹ فون نہیں دینا چاہیے
سی پی او فیصل آباد سہیل احمد کے مبینہ ٹوئٹر اکاؤنٹ سے چند گھنٹے قبل ایک ویڈیو شئیر کی گئی ہے جس کے ساتھ لکھا گیا ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران لاہور رنگ روڈ پر گرل فرینڈ کے ساتھ سیر سپاٹے کرنے والے شخص کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ملزم طیب موٹروے پولیس کی وردی پہنے خاتون کے ہمراہ جا رہا تھا جب ناکے پر موجود پولیس نے انہیں روک کر پوچھ گچھ کی۔ ویڈیو میں لڑکی اور لڑکے سے بھی پوچھا جا رہا ہے کہ ہاں جی آپ اکٹھے پھر رہے تھے جب ہم نے آپ کو پکڑا ہے۔ دونوں کو کیمرے پر لا کر وائرل کرنے کی نیت سے ہی یہ ویڈیو ریکارڈ کی گئی ہے۔

سب سے پہلے تو یہ پتہ لگایا جانا چاہیے کہ ہمارے پولیس اور سول ایڈمنسٹریشن کے اہلکاروں کو کس نے یہ مت دی تھی کہ وہ سوشل میڈیا پر اکاؤنٹس بنا کر ادارے کی نیک نامی کے نام پر اپنی ذاتی تشہیر کیا کریں؟ سب سے پہلے تو اس پبلک ریلیشنز بلنڈر کے مؤجد وہ صاحب ہیں۔ ان کو کسی نے یہ نہیں سمجھایا کہ جب آپ کے اہلکاروں کو بنیادی قسم کی ٹریننگ بھی نہیں دی گئی ہے کہ کس قسم کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر اپلوڈ کی جا سکتی ہیں اور کس طرح کی نہیں، تو ان کو ٹوئٹر اکاؤنٹ بنانا کیوں سکھا دیا؟



چھوڑیے ٹوئٹر کو بھی۔ ہمارے پولیس افسران کو یہ ٹریننگ تک نہیں دی گئی کہ ملزم کی بھی کوئی پرائیویسی ہوتی ہے۔ آپ نے ایک لڑکے کو گرفتار کیا ہے، اس سے پوچھ گچھ پر پتہ چلا کہ وہ موٹروے پولیس کا اہلکار نہیں ہے۔ آپ اسے گرفتار کریں اور اس پر کیس چلائیں۔ یہ ویڈیو بنانے کا کیا مقصد ہے؟ اور پھر اس کے ساتھ موجود خاتون کی ویڈیو بھی بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کی گئی۔ خدا نخواستہ وہ لڑکی بدنامی کے ڈر سے کوئی انتہائی قدم اٹھا لے، یا اس کے گھر والے بدنامی کے خوف سے اس کو کوئی نقصان پہنچائیں تو ذمہ دار کیا سی پی او صاحب یا ان کا اکاؤنٹ چلانے والے صاحب ہوں گے؟ خدا نہ کرے کہ ایسا ہو لیکن ہمارے ملک میں یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔

یہ پہلا واقعہ نہیں ہے کہ سوشل میڈیا پر کسی سکیورٹی ادارے نے کوئی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر جاری کر دی ہو۔ اب سے کچھ ہی عرصہ قبل لاہور سیف سٹی کے کیمروں سے بھی لوگوں کی گاڑیوں کے اندر سے تصاویر لے کر لیک کر دی گئی تھیں اور اہلکاران محکمے ہی سے تعلق رکھتے تھے۔ یہاں یہ مائنڈ سیٹ بھی کار فرما رہتا ہے کہ ایسی لڑکی جو کسی لڑکے کے ساتھ بیٹھی ہو، اسے تو ویسے ہی نشانِ عبرت بنا دیا جانا چاہیے۔ یہی سوچ ہے جس کی وجہ سے بلوچستان یونیورسٹی کے ملازمین کو طلبہ و طالبات کی تصاویر اور ویڈیوز بنا کر انہیں بلیک میل کے لئے استعمال کرتے ہوئے ذرا بھی ذرا بھی شرم یا حیا محسوس نہیں ہوتی۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ اس لڑکی نے کسی قانون کے تحت کوئی جرم کیا ہی نہیں ہے۔ اور ہمیں تو یہ بھی نہیں پتہ کہ یہ واقعہ دراصل پیش بھی آیا یا سٹیج ڈرامے کی مشہور جگت کے مصداق لڑکی کو گوجرانوالہ اور لڑکے کو ساہیوال سے پکڑ کر مقدمہ بنا دیا گیا ہو کہ دونوں لاہور لارنس گارڈن میں اکٹھے بیٹھے تھے۔ ہوا بھی ہو تو پولیس اس پر کوئی مقدمہ نہیں بنا سکتی، اس بات کا علم ویڈیو بنانے والے صاحب کو بھی ہے جو خود کہتے سنائی دے رہے ہیں کہ آپ کی امی کو فون کیا ہے، وہ آ رہی ہیں آپ کو لینے۔ تو جب کوئی جرم ہوا نہیں، تو کیا صرف لڑکی کی زندگی عذاب بنانے کی نیت سے یہ ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی؟

کیا ملے گا اس سے؟ چند لائکس، ریٹوئیٹس اور فالؤرز؟ یا پھر اپنے تئیں اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی نیت سے یہ بیہودہ حرکت کی گئی ہے؟ داروغہ جی کو کوئی بتلائے کہ آپ کی دقیانوسی سوچ کے مطابق بھی اس لڑکی کی ویڈیو بنانے کا آپ کو کوئی حق نہیں۔

اس ملک کے پالیسی سازوں سے گذارش ہے کہ بندر کے ہاتھ استرا نہیں دیا جاتا۔ پہلے ان لوگوں کو ٹریننگز دلوائیں، sensitize کریں کہ کیا چیز معاشرے اور افراد کے لئے اچھی ہے اور کیا بری، اس کے بعد ان کم عقلوں کو سمارٹ فونز پکڑائے جائیں۔ اور ایف آئی اے سے بھی درخواست ہے کہ اپنے پیٹی بھائیوں پر بھی ہاتھ ڈالیں، انہیں گرفتار کریں اور قرار واقعی سزا دلوائیں۔ خاص طور پر اگر یہ اکاؤنٹ سی پی او فیصل آباد کا نام استعمال کر کے کسی لڑکی کی زندگی تباہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے تو اسے گرفتار کر کے عبرت کا نشان بنایا جانا انتہائی ضروری ہے۔

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.