’قاضی فائز عیسیٰ اور مریم نواز پر کیس بنانے کے لئے وزیراعظم کی طرف سے دباؤ ڈالا گیا‘ سابق ڈی جی ایف آئی اے نے نیا پنڈورا باکس کھول دیا

’قاضی فائز عیسیٰ اور مریم نواز پر کیس بنانے کے لئے وزیراعظم کی طرف سے دباؤ ڈالا گیا‘ سابق ڈی جی ایف آئی اے نے نیا پنڈورا باکس کھول دیا
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سابق ڈائریکٹر جنرل بشیر میمن نے گزشتہ روز ایک انٹرویو میں کہا کہ وزیراعظم کی جانب سے انہیں بطور ڈی جی ایف آئی اے مریم نواز، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف کیسز بنانے کے لئے دباؤ ڈالا گیا۔

نجی چینل ‘جیو نیوز’ کے پروگرام ‘آج شاہزیب خانزدہ کے ساتھ’ میں گفتگو کرتے ہوئے بشیر میمن نے بتایا کہ پہلے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات ہوئی جس میں انہوں نے صرف یہ کہا کہ آپ ہمت کرو آپ کرسکتے ہو۔ وزیر اعظم ہاؤس میں وزیر اعظم عمران خان کے بعد ان کی مشیر برائے احتساب و داخلہ شہزاد اکبر اور وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم سے ملاقات ہوئی جہاں انہوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف مقدمہ بنانے کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔

بشیر میمن نے بتایا کہ تب تک مجھے نہیں معلوم تھا کہ کیس کی نوعیت کیا ہے اور کس کے خلاف ہمت کریں۔ جب ہم شہزاد اکبر کے کمرے میں پہنچے تو انہوں نے بھی یہ بات کی کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کیس بنانا ہے۔ اس کے بعد وہ وہاں سے  شہزاد اکبر اور فروغ نسیم کے دفتر پہنچے تو وہاں چئیرمین ایف بی آر اشفاق صاحب بھی موجود تھے۔ فروغ نسیم اصرار کر رہے تھے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف مقدمات بننے چاہیئں اور فروغ انہوں نے کہا کہ جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف کیس میں خود لڑوں گا۔

https://twitter.com/shazbkhanzdaGEO/status/1387125263671119875

بشیر میمن نے کہا کہ میں نے ان پر واضح کیا کہ ایف آئی اے سپریم کورٹ کے جج کے خلاف مقدمہ دائر نہیں کرسکتی اور مقدمہ صرف سپریم جوڈیشل کونسل کا کام ہے۔  میرے مؤقف پر وفاقی وزیر نے کہا کہ ہم مل کر کر لیں گے، آپ اور ایف بی آر مل کر کرلیں گے تاہم میں نے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف مقدمہ دائر کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ ہم بطور ایک ادارہ اپنی ساکھ خراب نہیں کرسکتے۔

جیو نیوز کے اینکر شاہزیب خانزادہ کے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ فروغ نسیم، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف منی لانڈرنگ کا کیس بنوانا چاہتے تھے تاہم انہوں نے فروغ نسیم پر واضح کردیا تھا کہ صرف سپریم جوڈیشل کونسل کی ہدایت پر ہم تحقیقات کرسکتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ایف بی آر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر اشفاق احمد آمادہ تھے کہ وہ اور آیف بی آر مل کر جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف کیس کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔ بشیر میمن نے کہا کہ میں نے اشفاق صاحب کو سمجھایا کہ ملک میں کوئی آئین اور قانون ہے ہم ایسا نہیں کر سکتے مگر ہر بندہ اپنی مرضی کا مالک ہے۔ انہوں نے کہا کہ مججھے یقین نہیں تھا کہ یہ کیس کر دیں گے اور یہ کیس اتنا لمبا چلے گا۔

بشیر میمن نے بتایا کہ ملاقات کے چند ماہ بعد شہزاد اکبر نے جسٹس فائز عیسیٰ اور ان کے اہلخانہ کی ٹریول ہسٹری کے بارے میں مجھ سے پوچھا تھا لیکن میں نے مثبت جواب نہیں دیا تو شہزاد اکبر نے کہا کہ آپ چھوڑ دیں، آپ سے نہیں ہوگا۔ سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے کہا کہ تین سال قبل ہونے والی اس ملاقات کے بارے میں اوپن انکوائری کرالی جائے سب کچھ واضح ہوجائے گا۔

ایک سوال کے جواب میں  بشیر میمن نے کہا کہ وزیر اعظم کی طرف سے خاص طور پر مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور نائب صدر مریم نواز کے خلاف مقدمات بنانے پر دباؤ ڈالا جاتا تھا۔  شہباز شریف کے بیٹے اور کیپٹن (ر) صفدر سمیت دیگر مسلم لیگ (ن) رہنماؤں کے خلاف مقدمات کے لیے کہا گیا۔

بشیر میمن نے کہا کہ مریم نواز کے حوالے سے تین مختلف اوقات میں دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنے کا کہا گیا۔ جب سوشل میڈیا پر خاتون اول کی تصویر سامنے آئی تو مجھے کہا گیا کہ ان کی تصاویر لگانے والے مسلم لیگ ن کی سوشل میڈیا ٹیم کے خلاف دہشتگردی کا مقدمہ بنائیں تو میں نے کہا کہ اس پر دہشتگردی کا مقدمہ نہیں بنتا۔ دوسری بار جب مریم نواز نے جج ارشد ملک سے متعلق ویڈیو اسکینڈل میں پریس کانفرنس کی تو وزیراعظم کی طرف سے انہیں کہا گیا کہ مریم نواز نے جج کو دھمکایا ہے ان کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنے پر دباؤ ڈالا گیا۔

https://twitter.com/shazbkhanzdaGEO/status/1387136412689043460

شاہزیب خانزادہ نے بشیر میمن سے پوچھا کہ یہ طعنہ کس نے دیا تھا کہ دیکھیں نیب کو ایک فون کیا اور اگلے دن شہباز شریف گرفتار ہوگئے؟ اس سوال کے جواب میں ایف آئی اے کے سابق ڈی جی بشیر میمن نے بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا۔ بشیر میمن نے بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان نے مجھے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا حوالہ دے کر کہا کہ کوئی بھی سرکاری محکمہ ان کے احکامات کو رد نہیں کرتا اور تم مجھے کہتے ہو کہ آئین اور قانون یہ کہتا ہےتو میں نے وزیراعظم عمران خان پر واضح کیا کہ پاکستان میں جمہوریت جبکہ سعودی عرب میں بادشاہت ہے، یہاں عدالتیں آزاد ہیں جہاں ہمیں کسی کو گرفتار کرکے مقرر وقت میں عدالت میں پیش کرنا ہوتا ہے اور ساتھ ہی شواہد کی بنیاد پر کیس تیار کرنا ہوتا ہے۔

https://twitter.com/shazbkhanzdaGEO/status/1387126986456375304

بشیر میمن نے بتایا کہ نواز شریف اور مریم نواز کو گرفتار کرنے کا بہت دباؤ تھا اس کے علاوہ شہباز شریف، مریم اورنگزیب، حمزہ شہباز، احسن اقبال، شاہد خاقان عباسی، رانا ثنا اللہ، جاوید لطیف، خرم دستگیر، پیپلزپارٹی سے خورشید شاہ، نفیسہ شاہ، مصطفیٰ نواز کھوکھر سمیت جو بھی حکومت کے خلاف بات کرتا تھا اس کو پکڑنے اور اس کے خلاف انکوائری کرنے کا دباؤ ڈالا جاتا تھا۔

https://twitter.com/shazbkhanzdaGEO/status/1387132355568144402

سابق چئیرمین ایف آئی اے بشیر میمن نے کہا کہ ایف آئی اے کوئی گینگ نہیں ہے، ایف آئی اے کو قانونی راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔

شاہزیب خانزادہ نے ان سے سوال کیا کہ فواد چوہدری کے مطابق آپ کو جبری طور پر ریٹائرڈ کر دیا گیا تو آپ اب تک خاموش کیوں رہے۔ اس سوال کے جواب میں بشیر میمن نے کہا کہ ریٹائرمنٹ سے چند دن قبل جب میں نے ان تمام کاموں سے انکار کر دیا تو مجھے جبری چھٹی پر بھیجا گیا اور مجھے ریٹائرڈ نہیں کیا گیا میں نے خو 15,20 دن قبل ریٹائرمنٹ لی کیونکہ یہ رویہ جو ریٹائرمنٹ سے چند دن قبل رکھا گیا وہ ناقابل قبول تھا۔ تاہم میں ایسی باتیں کرنے کا قائل نہیں ہوں میری زندگی بڑی اچھی جارہی ہے، کچھ زمینیں ہیں وہاں زمینداری کر رہا ہوں اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ خوش ہوں۔

فروغ نسیم کا رد عمل:

مشیر  برائے احتساب و داخلہ شہزاد اکبراور وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے سابق بشیر میمن کے الزامات مسترد کر دیے۔ فروغ نسیم کا اپنے بیان میں بشیر میمن کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہنا تھا کہ بشیر میمن سے جسٹس قاضی فائز  عیسیٰ سے متعلق کوئی بات نہیں ہوئی، شہزاد اکبر  اور بشیر میمن کبھی میرے آفس نہیں آئے، اعظم خان ایک مرتبہ قانونی اصلاحات پر بات کے لیے میرے آفس آئے تھے۔


ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان، اعظم خان یا شہزاد اکبر نے مجھےکبھی نہیں بتایا کہ انہوں نے بشیر میمن سے جسٹس عیسیٰ سے متعلق بات کی ہے۔ گزشتہ روز وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر نے بھی ایف آئی اے کے سابق سربراہ کے الزامات کی تردید کر دی تھی