گلگت بلتستان اسمبلی صحافیوں کے لیے قانون سازی کیوں نہیں کر سکی؟

پاکستان کی دیگر اسمبلیوں میں صحافیوں اور صحافت سے متعلق متعدد قوانین منظور کئے گئے ہیں جن میں معلومات تک رسائی، پریس فاؤنڈیشن، جرنلسٹس ہاؤسنگ فاؤنڈیشن، قوانین بہ نسبت ہتک عزت، پریس کونسل وغیرہ شامل ہیں تاہم گلگت بلتستان تک ان قوانین کو توسیع نہیں دی گئی اور گلگت بلتستان اسمبلی سے ان کو منظور بھی نہیں کروایا گیا ہے۔

گلگت بلتستان اسمبلی صحافیوں کے لیے قانون سازی کیوں نہیں کر سکی؟

حکومت گلگت بلتستان نے 18 فروری 2018 کو اعلان کیا تھا کہ گلگت بلتستان کے صحافیوں کے لئے پریس فاؤنڈیشن بل اور ورکنگ جرنلسٹوں کے لئے انشورنس پالیسی تیار ہو گئی ہے اور اخبارات کے اشتہارات کو صحافیوں کی تنخواہوں سے مشروط کیا جائے گا جبکہ صحافیوں کی کم از کم تنخواہ بنیادی اجرت کے مساوی ہو گی تاہم تین سال گزرنے کے باوجود مندرجہ بالا دعوؤں میں سے کوئی بھی دعویٰ حقیقت میں تبدیل نہیں ہو سکا ہے۔

اس سے قبل 12 اپریل 2012 کو محکمہ اطلاعات گلگت بلتستان نے اس وقت کے وزیر اطلاعات فتح اللہ خان کی صدارت میں اجلاس منعقد کیا تھا جس کا ایجنڈا پریس فاؤنڈیشن بل تھا۔ مسلم لیگ ن کی حکومت کے دوران اس وقت کے وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمٰن نے بھی پریس فاؤنڈیشن بل کی منظوری کی نوید سنا دی لیکن اسمبلی سے گزر کر بل قانون کی شکل اختیار نہیں کر سکا۔

صحافیوں کی فلاح و بہبود کے لئے پریس فاؤنڈیشن بل آزاد کشمیر اسمبلی نے 2003 میں منظور کر لیا تھا اور اس قانون پر عمل درآمد بھی ہو رہا ہے جس کے تحت باقاعدہ صحافیوں کی ایکریڈیشن بھی ہو چکی ہے اور اس سلسلے میں بورڈ بھی کام کر رہا ہے۔ پاکستان کی دیگر اسمبلیوں میں صحافیوں اور صحافت سے متعلق متعدد قوانین منظور کئے گئے ہیں جن میں معلومات تک رسائی، پریس فاؤنڈیشن، جرنلسٹس ہاؤسنگ فاؤنڈیشن، قوانین بہ نسبت ہتک عزت، پریس کونسل وغیرہ شامل ہیں تاہم گلگت بلتستان تک ان قوانین کو توسیع نہیں دی گئی اور گلگت بلتستان اسمبلی سے ان کو منظور بھی نہیں کروایا گیا ہے۔

2009 میں صدارتی آرڈر، گلگت بلتستان ایمپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس آرڈر، کے تحت وجود میں آنے والی اسمبلی کو تقریباً 14 سال ہو چکے ہیں۔ پہلی اسمبلی 2009 سے 2014 تک رہی جس میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت رہی اور سید مہدی شاہ قائد ایوان رہے۔ دوسری اسمبلی جون 2015 میں بنی اور جون 2020 تک رہی جس میں مسلم لیگ ن نے اکثریت حاصل کر لی اور حافظ حفیظ الرحمان قائد ایوان رہے۔ تیسری اسمبلی نومبر 2020 میں بنی جس میں پاکستان تحریک انصاف کو اکثریت ملی اور خالد خورشید خان قائد ایوان رہے جنہیں رواں سال جولائی کی 5 تاریخ پر حقائق چھپانے کے کیس میں عدالت نے نا اہل کردیا جس کے بعد حاجی گلبر خان قائد ایوان منتخب ہوگئے۔

2009 کے صدارتی آرڈر کے تحت ابتدائی طور پر قانون ساز اسمبلی گلگت بلتستان کو 63 امور پر قانون سازی کے اختیارات دیے گئے تھے۔ بعد ازاں 2018 میں دوبارہ صدارتی آرڈر، گلگت بلتستان گورنمنٹ آرڈر، کے تحت اسمبلی کو بااختیار کرتے ہوئے قانون ساز کا لفظ حذف کر دیا گیا اور قانون سازی کے اختیارات بھی بڑھا دیے گئے۔ اس اسمبلی سے اب تک 79 قوانین منظور ہو چکے ہیں تاہم ان قوانین میں سے ایک بھی قانون معلومات عامہ و معلومات تک رسائی کے متعلق نہیں ہے۔

سابق صدر یونین آف جرنلسٹس گلگت خالد حسین کہتے ہیں کہ صحافیوں کی فلاح و بہبود اور حقوق کے متعلق قانون سازی بہ نسبت دیگر مشکل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صحافیوں کے مضبوط ہونے سے عوامی سوالات مضبوط ہوتے ہیں اور آواز توانا ہوتی ہے جسے کوئی حکومت پسند نہیں کرتی ہے۔ پریس فاؤنڈیشن بل مسلم لیگ ن کے دور میں ڈرافٹ کی شکل اختیار کر گیا اور اسمبلی سے منظور بھی ہوا لیکن اس دور کے سپیکر فدا محمد ناشاد نے صحافیوں کو چکمہ دیا اور بغیر دستخط کئے گورنر کو بھجوا دیا جہاں سے ان چیزوں کی نشاندہی کر کے واپس اسمبلی بھیجا گیا لیکن نامعلوم وجوہات کی بنیاد پر اس بل پر انہوں نے دستخط نہیں کیے۔

سابق وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمان نے اس حوالے سے بتایا کہ پریس فاؤنڈیشن بل حکومتی بل تھا اور ہم نے خود اسمبلی میں ٹیبل کیا تھا لیکن ایک سازش کی وجہ سے یہ بل منظور نہیں ہو سکا۔ شروع میں سپیکر نے یہ بہانہ بنایا کہ صحافیوں کے امور پر قانون سازی کا اختیار گلگت بلتستان کونسل، جو بالائی فورم ہے جہاں پر 6 ارکان کو جی بی اسمبلی منتخب کرتی ہے اور 6 ارکان وفاقی حکومت منتخب کرتی ہے جبکہ وزیراعظم اس فورم کے چیئرمین ہوتے ہیں، کے پاس ہے لیکن ہم نے فیڈرل لیجسلیٹو لسٹ میں واضح کیا کہ قانون سازی جی بی اسمبلی کر سکتی ہے لیکن سپیکر نے اس پر پھر بھی دستخط نہیں کیے۔

سپیکر گلگت بلتستان اسمبلی نذیر احمد ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ صحافیوں کے لئے ان تمام امور پر قانون سازی کریں گے جو ملک کے دیگر شعبوں میں کی گئی ہے۔ پریس فاؤنڈیشن بل کو دوبارہ نکالیں گے جس کسی کے پاس ہے اور اس کے تمام ضوابط مکمل کر کے منظور کریں گے۔ معلومات تک رسائی کے قانون کو بھی بہت جلد اسمبلی میں پیش کریں گے۔

پریس کلب گلگت کے صدر خورشید احمد نے بتایا کہ انڈر گریجویٹ صحافی زیادہ ہیں جس کی وجہ سے انہیں اپنے حقوق کے متعلق علم نہیں ہے۔ یہاں سرکاری اشتہارات میڈیا کی لائف لائن کی حیثیت رکھتے ہیں جن کے ذریعے اداروں کو قابو کیا جاتا ہے اور ایسی قانون سازی میں اخباری مالکان رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ گلگت بلتستان میں صحافیوں کے حق میں قانون سازی نہ ہونے میں صحافی خود بھی ذمہ دار ہیں۔ بہت ساری شکایات ایسی ملتی ہیں کہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم کہتے کچھ اور ہیں اور صحافی لکھتے کچھ اور ہیں۔ ہم کوشش کرتے رہتے ہیں کہ مختلف اداروں کی مدد سے صحافیوں کے استعداد کار میں اضافہ کریں لیکن صحافی خود دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ اکثر صحافی پروفیشنل نہیں بلکہ پارٹ ٹائم صحافت کرتے ہیں۔ پریس فاؤنڈیشن کو اسمبلی سے گزارنے میں اخباری مالکان رکاوٹ پیدا کر رہے ہیں کیونکہ اس بل کے منظور ہونے سے مالکان پر بہت ساری ذمہ داریاں عائد ہو جائیں گی۔

ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن گلگت کے رکن ایڈووکیٹ اسلام الدین نے کہا کہ صحافیوں کے تحفظ کے لئے قانون سازی ناگزیر ہے۔ ملکی اور عالمی سطح پر جتنے قوانین رائج ہیں ان کو سامنے رکھ کر اور ان کا جائزہ لے کر صحافیوں کے لئے قانون سازی ہونی چاہئیے۔ 

فہیم اختر کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے اور وہ صحافت کے شعبے کے ساتھ منسلک ہیں۔