انصاف سے انکار

انصاف سے انکار
ایک مشہور قدیم کہاوت ہے کہ "انصاف میں تاخیر انصاف فراہم کرنے سے انکار کے مترادف ہوا کرتی ہے"۔ ان دنوں پاکستان کی عدلیہ انصاف کی فراہمی میں سست روی کے مسائل سے نبرد آزما ہے۔ دہائیوں سے یہ مقدمات کے فیصلوں اور سماعت کے حوالے سے سست روی کا شکار رہی ہے۔ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ سستا اور فوری انصاف آئین کے آرٹیکل 37(D) کے تحت شہریوں کو انصاف کی فراہمی ممکن بنائے۔ حال ہی میں دو بھائیوں غلام سرور اور غلام قادر کو سپریم کورٹ نے بے گناہ قرار دیتے ہوئے باعزت بری کرنے کا فیصلہ کیا لیکن یہ فیصلہ سنائے جانے سے ایک سال قبل ہی جیل حکام ان دونوں بھائیوں کو پھانسی دے چکے تھے۔ ان دونوں بھائیوں کو سپریم کورٹ نے 24 اور 11 سال قید کی سزا گزارنے کے بعد بری کیا۔ انہیں معلوم ہی نہیں تھا کہ آئین کا آرٹیکل 10(A) انہیں شفاف مقدمے کا حق فراہم کرتا ہے جبکہ آرٹیکل 37 انہیں فوری اور سستے انصاف کہ فراہمی کے حصول کا حق دیتا ہے۔

عدلیہ اس ناکامی کی ذمہ دار ہے اور مختلف مواقع پر اسے تسلیم کر چکی ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے عدالتی اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا ہے تاکہ عوام میں عدالتوں کی جانب سے انصاف کی فراہمی میں تاخیر پر پیدا ہونے والی تشویش کا ازالہ کیا جا سکے۔ لا اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق سپریم کورٹ میں اس وقت 38,539 مقدمات التوا کا شکار ہیں، پانچوں ہائی کورٹس میں التوا کا شکار مقدمات کی تعداد 293,947 ہے جبکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور چاروں صوبوں میں کام کرنے والی ماتحت عدلیہ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 1،869،886 ہے۔ جسٹس ریٹائرڈ جواد ایس خواجہ کی ہدایات پر کی گئی ایک تحقیق کے مطابق ماتحت عدالتوں میں مقدمہ دائر ہونے کے بعد اسے سپریم کورٹ تک پہنچنے میں اوسطاً پچیس برس لگ جاتے ہیں۔ اس ضمن میں مظہر فاروق نامی شخص کا مقدمہ ایک مثال ہے، جو 24 سال جیل کی دیواروں کے پیچھے زندگی گزارنے کے بعد 2016 میں سپریم کورٹ سے بے گناہ قرار پا کر مقدمے سے بری ہوا۔ ہم یہ بات سمجھ سکتے ہیں کہ مظہر فاروق کے مقدمے کی مانند بے پناہ مقدمات ابھی بھی ایسے ہوں گے جن کے فیصلے کے انتظار میں بیشمار افراد سالوں سے قید میں زندگی گزار رہے ہوں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ خامیاں اور کمزوریاں کیا ہیں جو انصاف کی بروقت فراہمی کے عمل میں رکاوٹیں ڈالتی ہیں؟



یہ بھی پڑھیے: آسیہ بی بی اور ہمارا کریمنل جسٹس سسٹم







جواب یہ ہے کہ محض ہمارے کمزور قوانین ہی ہماری عدالتوں کی بری کارکردگی کی وجہ نہیں ہیں۔ بہت سے دوسرے عناصر بھی موجود ہیں جو انصاف کی فراہمی میں تاخیر کا باعث بنتے ہیں۔ وکلا عدالت کے سامنے پیش نہ ہو کر جان بوجھ کر مقدمات کو تاخیر کا شکار بناتے ہیں۔ عملی طور پر وہ مسلسل اور غیرضروری طور پر سماعت میں تاخیر کی دعائیں کرتے ہیں۔ وکلا مقدمات کی سست روی میں برابر کے ذمہ دار ہیں۔ بار ایسوسئیشنز چھوٹے چھوٹے مسائل پر ہڑتالوں کا اعلان کر دیتی ہیں جو نہ صرف عدالتی مقدمات میں تاخیر کا باعث بنتی ییں بلکہ عدالتوں پر زیر التوا مقدمات کا بوجھ بھی ڈالتی ہیں۔ لیگل ایڈ سوسائٹی (Legal Aid Society) کی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق سول ضابطہ فوجداری کوڈ 1908 کی وہ دفعات جو کہ سول کورٹ میں چلنے والے مقدمات کے مختلف مراحل کا وقت مقرر کرنے سے متعلق ہیں پر عملدارآمد نہیں کروایا جاتا۔ اوسطاً مقدمے کا دفاع کرنے والے 6 ماہ کا وقت لیکر تحریری بیان متعلقہ ادارے میں جمع کرواتے ہیں جبکہ قانون کے مطابق اس بیان کو تیس روز کے اندر جمع کروانا ہوتا ہے۔ وفاقی اور صوبائی محکمے انصاف کی فراہمی کیلئے اپنا کردار ادا نہیں کر رہے۔ اگر انہوں نے مؤثر اقدامات اٹھائے ہوتے تو بہت سے مقدمات عدالتوں میں پہنچنے سے قبل ہی حل ہو جاتے۔



اس کی مثال دیتے ہیں۔ حال ہی میں ہیسکو (HESCO) نے غیرقانونی طور پر ہمارا بجلی کا کنکشن کاٹ دیا جبکہ ہمارے بجلی کے میٹر سے متعلق کوئی واجبات قابل ادا نہیں تھے۔ میں نے مختلف طریقے آزما کر اس مسئلے کو حل کرنا چاہا، یہاں تک کہ میں ہیسکو کے افسران کے پاس بھی گیا لیکن میری شنوائی نہ ہوئی۔ بالآخر تنگ آ کر میں نے عدالت سے رجوع کیا اور سندھ ہائی کورٹ میں آئین کے آرٹیکل 199 کی رو سے ایک درخواست دائر کر دی۔ ہزاروں درخواستوں کی مانند میری یہ درخواست بھی عدالت میں سماعت کی منتظر ہے۔ ججوں کی تعداد میں کمی بھی ان درخواستوں کے التوا کی بڑی وجہ ہے۔ محض کچھ جج حضرات ہزاروں کیسوں کو نمٹانے میں مصروف ہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان میں ججوں کی تعداد 17 ہے جبکہ زیر التوا مقدمات کی تعداد 40,000 تک پہنچ چکی ہے۔
وکلا کو بھی مقدمات میں تاخیری حربے اور سماعت ملتوی کروانے کے طریقوں کو ترک کرنے کی ضرورت ہے تاکہ درخواست گزار کو بروقت انصاف مل سکے۔ اسی طرح بار ایسوسئیشنوں کو بھی چھوٹے چھوٹے معاملات پر ہڑتالوں کے اعلانات کرنے کے برعکس روزانہ کی بنیادوں پر عدالتی کارروائیوں میں شریک ہونا چاہیے تاکہ بر وقت اور شفاف انصاف کی فراہمی یقینی بنائے جا سکے۔

اس مسئلے کے حل کیلئے بہت سے حل پیش کیے جا سکتے ہیں۔ ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں۔

سب سے پہلے تو یہ کہ کریمنل پراسیجر کوڈ اور پاکستان پینل کوڈ کے قوانین بالترتیب 120 اور 158 سال پرانے ہیں جبکہ سول پراسیجر کوڈ 110 سال پرانا ہے۔ یہ انگریز دور کے بنائے گئے قوانین ہیں اور اس وقت تنازعات کی نوعیت بالکل مخلتف ہوتی تھی جبکہ عدالتوں، وکلا اور عوام کو فراہم کردہ وسائل اور ٹیکنالوجی آج کے زمانہ جدید سے بالکل مختلف تھے۔ یہ قوانین اپیل، نظر ثانی اور از سر نو سنوائی کے لاتعداد مواقع فراہم کرتے ہیں اور وقت کے زیاں کا باعث بنتے ہیں۔ اس وقت اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ان قوانین کو زمانہ جدید کے تقاضوں میں ڈھالا جائے تاکہ زیر التوا مقدمات کی سنوائی کی رفتار تیز ہو اور عدالتی نظام کی استعداد بہتر بنائی جا سکے۔

اس ضمن میں قانون سازوں کو فوری طور پر عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ وکلا کو بھی مقدمات میں تاخیری حربے اور سماعت ملتوی کروانے کے طریقوں کو ترک کرنے کی ضرورت ہے تاکہ درخواست گزار کو بروقت انصاف مل سکے۔ اسی طرح بار ایسوسئیشنوں کو بھی چھوٹے چھوٹے معاملات پر ہڑتالوں کے اعلانات کرنے کے برعکس روزانہ کی بنیادوں پر عدالتی کارروائیوں میں شریک ہونا چاہیے تاکہ بروقت اور شفاف انصاف کی فراہمی یقینی بنائے جا سکے۔

تیسرا مشورہ یہ ہے کہ ججوں کی موجودہ خالی اسامیوں کو فوری طور پر پُر کرنا چاہیے اور ڈسٹرکٹ اور ہائی کورٹس میں ججوں کی تعداد زیر التوا مقدمات کے تناظر میں بڑھائی جائے۔ چوتھا مشورہ یہ ہے کہ تمام متعلقہ صوبائی اور وفاقی اداروں کو عوام کے مسائل اور تنازعات حل کرنے کیلئے اپنی آئینی اور قانونی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے تاکہ عوام کے مسائل کا فوری تدارک کیا جا سکے۔

جس طرح پانامہ لیکس کے معاملے پر جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی گئی تھی اس سے زیادہ اشد ضرورت ایک جے آئی ٹی انصاف کی فراہمی میں تاخیر کے مسئلے پر تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ اس مسئلے کو ابھی حل کر لیا جائے تو مستقبل میں آنے والے ہمارے چیف جسٹس حضرات اور ججوں کو پاکستان کے عدالتی نظام پر آنسو بہانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔