’مرے ہوئے بھائی کی چھوٹی بیٹی کو آگ میں نہیں دھکیل سکتا‘: پنچایت کے فیصلے کے خلاف اسلام آباد اپنی فریاد لانے والا سندھی نظامِ انصاف سے مایوس

’مرے ہوئے بھائی کی چھوٹی بیٹی کو آگ میں نہیں دھکیل سکتا‘: پنچایت کے فیصلے کے خلاف اسلام آباد اپنی فریاد لانے والا سندھی نظامِ انصاف سے مایوس
پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر گھوٹکی کے رہائشی غلام رسول نے سال 2008 کے عام انتخابات میں وڈیروں سے نجات حاصل کرنے کے لئے الیکشن مہم شروع کی اور لوگوں کو اس بات پر آمادہ کرنا شروع کیا کیا کہ مقامی وڈیروں سے نجات حاصل کرنے کے لئے اور ملک کو ایک نئی سمت دینے کے لئے نوجوانوں کو ووٹ دیں۔

غلام نے ایک آزاد امیدوار شہریار خان شر کے لئے الیکشن مہم شروع کی مگر غلام رسول کو معلوم نہیں تھا کہ ان کو اس مہم کے بعد کتنی اذیتوں سے گزرنا پڑے گا۔ الیکشن مہم کے دوران مقامی وڈیروں نے ان کے دیگر ساتھیوں سمیت ان پر دباؤ ڈالا اور ایک مقامی سیاسی پارٹی کو ووٹ دینے پر زور دیا مگر غلام رسول شہریار شرکے دیوانے تھے اور انھوں نے ان کے لئے بھرپور انتخابی مہم چلائی۔

34540/

غلام رسول کہتے ہیں کہ سال 2010 میں ان کے جوان بھائی کو اس جرم کی پاداش میں مقامی وڈیروں نے قتل کیا اور دھمکیاں دیں کہ اگر آپ باز نہیں آئے تو آپ کے خاندان کے دیگر افراد کو بھی قتل کر دیا جائے گا۔ دھمکیوں کے باوجود غلام رسول نے انصاف حاصل کے لئے عدالت میں کیس دائر کیا، جہاں اس کے بھائی کے قاتل کو عدالت نے عمر قید کی سزا سنائی۔

غلام رسول نے نیا دور میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وڈیروں کو اس بات کا بہت رنج تھا کہ کسی نے ان کی آنکھوں سے آنکھیں ملانے کی جرات کیسے کی۔ کچھ عرصے بعد انہوں نے میری نوجوان بہن کو اغوا کر لیا جو تاحال ان کے قبضے میں ہے۔

غلام رسول نے بہت کوشش کی کہ بہن کو بازیاب کروایں مگر تاحال ان کی بہن وڈیروں کے قبضے میں ہے اور انہیں یہ بھی نہیں پتا کہ ان کی بہن زندہ ہے یا نہیں؟

سال 2016 میں غلام رسول نے اپنے گاؤں کی 25 سالہ زرینہ کے والدین کے پاس اپنا رشتہ بھیجا مگر وڈیروں نے زرینہ کے خاندان والوں پر دباؤ بڑھایا کہ زرینہ کا رشتہ غلام رسول سے طے نہ کیا جائے۔ جس کے بعد غلام رسول اور زرینہ نے گھر سے بھاگ کر شادی کر لی۔ غلام رسول کہتے ہیں کہ زرینہ کو لے کر میں دوسری جگہ چلا گیا کیونکہ زرینہ کے بغیر میری زندگی ناممکن تھی۔

کچھ ہفتوں کے بعد پنچایت بیٹھ گئی اور انھوں نے حکم سنایا کہ غلام رسول زرینہ کے والدین کو پانچ لاکھ روپے اور اپنے بھائی (جو قتل ہوچکے ہیں) کی 9 سالہ بیٹی دے، جس پر غلام رسول نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ میں پانچ لاکھ روپے دینے کو تیار ہوں مگر اپنے مرے ہوئے بھائی کی چھوٹی بیٹی کو آگ میں نہیں دھکیل سکتا۔ بعدازاں پنچائیت کے حکم پر غلام رسول کے گھر اور دکانوں کو مسمار کر دیا گیا۔

غلام رسول نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ میں کراچی میں تھا جب میرے والدین پر تشدد کر کے ان کو گھروں سے نکالا گیا، میرا گھر اور دکانیں مسمار کی گئیں اور اس کے ساتھ ساتھ میرے درجنوں درختوں کو کاٹ دیا گیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ پنچایت اور پولیس پر مقامی سیاسی وڈیروں کا دباؤ تھا جن کی وجہ سے انھوں نے یہ قدم اٹھایا اور مجھے دربدر کیا گیا۔

غلام رسول کہتے ہیں کہ مجھے کسی نے کہا تھا اسلام آباد جاؤ وہاں انصاف جلدی ملے گا، مگر مجھے نہیں معلوم تھا کہ انصاف اتنا مہنگا ہے کہ اس کے لئے مجھے دوبارہ سڑکوں پر دربدر رہنا پڑے گا اور مجھے انصاف تب بھی نہیں ملے گا۔

واضح رہے کہ غلام رسول اس وقت اپنے بوڑھے والدین کے ساتھ پریس کلب کے سامنے خیمہ نما گھر میں رہائش پذیر ہے اور گذشتہ دو سال سے وہ مارکیٹ میں سبز چائے فروخت کرتا ہے۔

غلام رسول کی بیوی کہتی ہے کہ ہم نے چار سال پہلے پسند کی شادی کی تھی اور پنچایت نے ہم پر کاروکاری کا الزام لگایا، جس کے بعد میرے شوہر کا گھر توڑ دیا گیا اور ہمارا بہت نقصان ہوا کیونکہ ہم نے پسند کی شادی کی تھی، جس کی ہمیں سزائیں دی گئیں اور ہم یہ سب تاحال بھگت رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ہم دو سال سے اسلام آباد کی سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں مگر عمران خان کی مدینہ کی ریاست نظر نہیں آ رہی۔ کیا یہ مدینہ کی ریاست ہے جہاں ظالم کے ستائے ہوئے لوگ انصاف کے لئے دربدر ہوں اور ان کو انصاف نہ ملے۔

زرینہ کہتی ہے کہ ہم نے تین بار عمران خان اور بلاول بھٹو کی رہائش گاہ کا سفر کیا مگر انصاف کی امیدیں نظر نہیں آ رہیں جبکہ ہمارے ساتھ پاکستان تحریک انصاف کے وزیر علی محمد خان اور شہریار آفریدی نے انصاف دلانے کا وعدہ کیا تھا۔

 

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔