سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس گلزار احمد نے کراچی کے مسائل کے حوالے سے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرتے ہوئے سندھ حکومت پر سوالات کی بوچھاڑ کر دی مگر سندھ حکومت کے اٹارنی جنرل عدالت کو مطمئن نہ کر سکے۔ جس پر چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کیوں نہ کراچی کو وفاق کے حوالے کر دیا جائے۔ اس موقع پر موجود وفاق کے نمائندے اٹارنی جنرل آف پاکستان نے کہا کراچی کے حوالے سے ہمارے پاس 2 یا 3 حل ہیں تاہم ہم عدالت میں بتانے کی پوزیشن میں نہیں۔
سپرہم کورٹ کے اس ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران پاکستان بار کونسل کا اجلاس بھی ہوا جس کے بعد وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل عابد ساقی نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کراچی کا مسئلہ سیاسی جماعتوں کو حل کرنا چاہیے۔ سپریم کورٹ میں 55 ہزار کے قریب مقدمات زیر سماعت ہیں، عدالت پہلے ان مقدمات کی سماعت کرے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بدقسمتی سے ہمارا عدالتی نظام ست روی کا شکار ہے، عام آدمی کو سستا اور فوری انصاف میسر نہیں ہے، جس کی ذمے داری پولیس وکلا اور عدالت پر عائد ہوتی ہے۔ پاکستان بار کونسل کو اس طرف بھی توجہ دینی چاہیے اور اس کا سدباب کرنا چاہیے۔
کراچی کے مسائل کے حل کے لیے بھی پاکستان بار کونسل نے صرف صوبائی حکومت کا معاملہ قرار دے کر بات ختم کر دی۔ اگر صوبائی حکومت اس قابل ہوتی تو آج یہ نوبت نہ آتی۔ کراچی وہ بدقسمت شہر ہے جہاں شہری حکومت متحدہ قومی موومنٹ کی ہے، جو بے اختیاری کا رونا روتی ہے، صوبائی حکومت پیپلز پارٹی کی ہے جو اندر سے یہ سمجھتی ہے کراچی کے عوام نے تو کبھی ہمیں ووٹ دیے ہی نہیں۔ این ایف سی ایوارڈ کا مکمل حصہ نہ ملنے کا اظہار بھی کرتی ہے۔ وفاقی حکومت تحریک انصاف کی ہے، جسے اس بار کراچی کے عوام کا بھرپور مینڈیٹ ملا ہے، وہ 18ویں ترمیم کا راگ الاپ رہی ہے۔ مگر چونکہ تحریک انصاف کے 13 اراکین قومی اسمبلی اس شہر سے ہیں لہذا ان پر ووٹروں کی طرف سے مسائل کے حل کے لیے شدید دباؤ ہے اور ہونا بھی چاہیے تھا کیونکہ کراچی کے عوام نے پہلی بار متحدہ قومی موومنٹ کی بحائے تحریک انصاف کو ووٹ دیے۔
حالیہ بارشوں کے دوران کراچی میں بہت تباہی ہوئی اوپر سے کے الیکٹرک نے بھی ہاتھ کھڑے کر دیے۔ ایک شدید بارش اوپر سے بجلی کی طویل بندش کراچی کے عوام دوطرفہ مصیبت کا شکار رہے ہیں۔ ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونا ایک فطری عمل ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے فورا این ڈی ایم اے کے چیئرمین جنرل افضل کو کراچی پہنچے کی تاکید کی، ان کے جاتے ہی کراچی کے نالوں کی صفائی بھی شروع ہو گئی اور خواب غفلت سے بیدار ہوئی اور یک دم گورنر راج کے خلاف نعرے لگانے شروع کر دیے۔
اگرچہ تحریک انصاف کی صوبائی قیادت گورنر راج کا نفاذ چاہتی ہے مگر وزیراعظم عمران خان ایسا کوئی ارادہ ابھی تک نہیں رکھتے۔ جب سے این ڈی ایم اے کراچی میں متحرک ہوئی ہے، صوبائی حکومت کے وزرا حرکت میں نظر آرہے ہیں۔ ہائے اس زود پشیمان کا پشمان ہونا۔
اب جنرل افضل نے کراچی کے مسائل کے مکمل حل کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے، جس میں پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کے اراکین شامل ہیں۔ جو وزیر اعلیٰ کی زیر نگرانی ہے۔ میرے خیال میں مقتدرہ اور وفاقی حکومت نے سندھ حکومت کو ایک آخری اور بھرپور موقع دینے کا فیصلہ کر لیا ہے، اگر اب بھی انہوں نے کام نہ کیا تو پھر شاید گورنر راج ہی آخری حل ہو۔
ماضی میں پیپلز پارٹی کی حکومت پنجاب اور خیبرپختونخوا میں گورنر راج کے فیصلے کر چکی ہے، اپنی بار ہر بات جائز اور دوسروں کے لیے ناجائز ہو جاتی ہے، ان سب باتوں کو بھلا کر صوبائی حکومت کو اب کراچی کے مسائل کو حل کرنا چاہیے اور وہ لوگ بھی دیکھ لیں کہ آخر ایک جنرل نے آ کر ہی تینوں سیاسی جماعتوں کو ایک میز پر بیٹھا کر بات کرائی ہے۔ کاش ہمارے سیاستدان اتنے صاحب عقل ہو جائیں کہ خود ہی ایک ہو کر عوام کے مسائل حل کریں۔
حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔