بینظیر شہید پر بائیں بازو کی ناجائز تنقید اسٹیبلشمنٹ کو مضبوط کرتی ہے

بینظیر شہید پر بائیں بازو کی ناجائز تنقید اسٹیبلشمنٹ کو مضبوط کرتی ہے
ترقی پسندوں کی جانب سے محترمہ بینظیر بھٹو کی سیاسی جدوجہد کو یہ کہہ کر رد کر دینا کہ وہ ایک جاگیرداریا خاندانی سیاست کی وارث تھیں، ایک انتہائی رجعت پسندانہ سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے اپنے پورے کنبے کی قربانی دی، جدوجہد کے اس سفر میں انہیں قید و بند کی صعوبتیں اور دھمکیاں بھی برداشت کرنا پڑیں، عورت ہونے کی بنا پر مخالفین کی جانب سے نازیبا اور نامناسب تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا اور اسی جہد مسلسل میں انہیں بالآخر ایک خوفناک حادثے میں اپنی جان کی قربانی بھی دینا پڑی۔

انہیں ان تمام مصیبتوں کا سامنا اس لئے نہیں کرنا پڑا کیونکہ وہ ایک جاگیردار تھیں (کتنے جاگیردار ان مشکلات سے دوچار ہیں؟) وہ اس لئے مشکلات سے لڑیں کیونکہ انہوں نے آمریت، مذہبی انتہا پسندی اور پدر شاہی نظام کے خلاف آواز اٹھائی۔ ان کی ظلم اور جبر برداشت کرنے کی قابلیت اس خطے میں بسنے والے لوگوں کی اپنی محرومیوں سے لڑنے کی طاقت کی عکاسی کرتی ہے۔ جو کہ خود بھی نوآبادیاتی نظام کے ظلم و ستم کا مقابلہ کرنے پر مجبور ہیں۔

یقیناً انہوں نے کچھ غلطیاں بھی کیں، سمجھوتے بھی کیے اور ان کی کچھ مجبوریاں بھی تھیں۔ تاہم،یہ مجبوریاں ایک مضبوط اور سفاکانہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف طویل اور پرجوش جدوجہد کا نتیجہ تھیں نہ کہ محض نظریاتی تخیل۔ ہر نسل کو ماضی کی غلطیوں سے سیکھنا چاہیے اور ان کو مدنظر رکھتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے۔ یہ سبق ہمارے لئے بھی ہے۔ لیکن یہ سب بینظیر یا ان ساتھیوں کی جدوجہد کو رد کر دینےسے ممکن نہیں ہوگا۔ ظلم وجبر کے خلاف لڑنے کی ان کی جدوجہد، مزاحمت اور پروقار انداز ہمارا بھی ورثہ ہیں۔ ان کی جانب سے کیے گئے سمجھوتے بھی بحثیت قوم ہماری اجتماعی ناکامی ہیں جسکی تصحیح کرتے ہوئے ہمیں آگے بڑھنا ہے۔

پیپلز پارٹی کی سیاست پر بائیں بازو کی ایک مفصل اور جامع تنقید موجود ہے۔ تاہم، نوے کی دہائی میں رجعتی قوتوں نے بائیں بازو کا ہی بیانیہ پیپلز پارٹی کے خلاف استعمال کیا اور بینظیر کی ترقی پسند سیاست کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ جبکہ یہ رجعتی قوتیں پیپلز پارٹی میں موجود بائیں بازو کے لوگوں سے اس سے بھی زیادہ نفرت کرتے تھے۔ تو کہا یہ جاسکتا ہے کہ دائیں بازو کی ان رجعتی قوتوں کو صرف بینظیر سے نفرت نہیں تھی بلکہ انہیں ترقی پسند سیاست سے نفرت بھی تھی۔ لہٰذا ہمیں اپنے دوستوں اور دشمنوں میں فرق واضح کرنے کی شدید ضرورت ہے اور اپنے نظریے کی بنیاد پر پیپلز پارٹی کی سیاست پر تنقید کرنی چاہیے نہ کہ بدنیتی پر مبنی رٹے رٹائے الزامات کو دہراتے رہیں۔

آخر کار، دنیا بھر کے دائیں بازو کے سیاست دان سیاست کو معاشرتی اور معاشی پہلوؤں تک محدود کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو کہ نوجوانوں کو غیر سیاسی کرنے کی ایک مذموم سازش ہے۔ ایک سازش کے تحت ایک ایسا نقطہ نظر بنایا گیا ہے جس میں ضیاالحق جیسے ڈکٹیٹر کو متوسط طبقے سے اٹھ کر اعلیٰ منصب تک پہنچنے کی مثالیں دی جاتی ہیں لیکن بھٹو کو ایک بد ترین جاگیردار تصور کیا جاتا ہے۔ ایسا تقابلی جائزہ ایسے ہی ہے جیسے ایک فاشسٹ حکمران نریندر مودی گاندھی یا نہرو خاندان کے مقابلے میں خود کو بہتر قرار دیتا ہے۔

اس کی بجائے، ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ سیاست کی سمت کا تعین ان اصولوں پر ہوتا ہے جو سیاسی میدان میں طے کیے جاتے ہیں جسکے لئے قربانیاں دینے کے لئے بھی ہمہ وقت تیار رہنا پڑتا ہے۔ اسی لئے محترمہ بینظیر بھٹو نو آبادیاتی نظام کے خلاف مزاحمت کا ایک استعارہ ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون کتنا مارکسی فلسفہ استعمال کرتا ہے تاہم اگر ہم ان سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو ہمیں مزید کام کرنا ہوگا اور مزید قربانیوں کے لئے ہمیشہ تیار رہنا ہوگا۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی سیاسی جدوجہد کو رد کرنا ایک ناقص، شکست خوردہ اور حاسدانہ سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ ایک ایسی کیفیت ہے جو ہمیں حقیقی ترقی پسند متبادل سیاست کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کی نفرت انگیز سیاست کے قریب لاتی ہے۔

ڈاکٹر عمار علی جان ایک محقق اور سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ انہوں نے کیمبرج یونیورسٹی سے تاریخ میں پی ایچ ڈی کی ہے ۔مصنف حقوقِ خلق پارٹی سے منسلک ہیں۔