عارف حمید بھٹی نے دعویٰ کیا ہے کہ رانا شمیم سازش بے نقاب ہو چکی ہے۔ میری اطلاع کے مطابق کچھ لوگ گرفتار ہوں گے جبکہ باقی سازش کے الزام میں پکڑے جائیں گے۔
جی این این کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم عدالت کے سامنے اس قدر برے طریقے سے ایکسپوز ہو چکے ہیں۔ یہ بات بھی ثابت ہو چکی ہے کہ اس سازش میں وہ اکیلئے نہیں بلکہ ان کے ساتھ ملک سے بھاگے ہوئے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف بھی شریک تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب مسلم لیگ (ن) میں صف ماتم بچھنے والا ہے۔ میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ انصار عباسی ایک سینئر جرنلسٹ ہیں، جب رانا شمیم عدالت کے سامنے یہ بات حلفاً کر رہے ہیں کہ میں بیان حلفی سربمہر کر دیا تھا، اسے کسی کو نہیں دیا تو یہ ان کے پاس کیسے پہنچ گیا؟
انہوں نے کہا کہ اگر انصار عباسی کے بجائے میرے پاس یہ خبر ہوتی تو میں کبھی اسے بغیر ثبوت میڈیا میں نہ دیتا۔ ان کے پاس یقیناً اس بیان حلفی کی کاپی موجود ہوگی، کیونکہ یہ سارا کیا دھرا ہی نواز شریف کا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: رانا شمیم نے نواز شریف کے سامنے بیان حلفی پر دستخط کرنے کی تردید کر دی
دوسری جانب سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم نے بیان حلفی پر دستخط نواز شریف کے دفتر میں ان کے سامنے کرنے کی تردید کر دی ہے۔
پیشی سے قبل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رانا شمیم نے کہا کہ بیان حلفی ریکارڈ کرایا تو اس وقت اکیلا تھا۔
صحافی نے پوچھا کہ کہا جا رہا ہے کہ آپ نے میاں صاحب کے ساتھ بیٹھ کر بیان حلفی بنایا، کیا اس بات میں کوئی صداقت ہے؟ آپ کوئی کمنٹ کریں گے؟۔ رانا شمیم نے جواب دیا کہ یہ بات تو آپ انہی سے پوچھیں جو ایسا کہہ رہے ہیں۔ صحافی نے سوال کیا کہ آپ نے اکیلے یہ حلف نامہ دیا تھا؟۔ رانا شمیم نے جواب دیا بالکل۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت شروع کی تو برطانیہ سے آیا رانا شمیم کا بیان حلفی عدالت کے سامنے پیش کیا گیا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ انہوں نے یہ بھی بتانا ہے کہ کہاں یہ بیان حلفی دیا اور کون کون وہاں تھا، کس نے کس کو لیک کیا۔
عدالت نے رانا شمیم کو روسٹرم پر طلب کرکے لفافہ کھولنے کا حکم دیا۔ رانا شمیم نے بیان حلفی کھولا اور اس کے اوریجنل (اصل) بیان حلفی ہونے کی تصدیق کردی۔ اٹارنی جنرل نے اعتراض اٹھایا کہ یہ بیان حلفی سیل نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ رانا شمیم نے جو جواب جمع کرایا اس میں سارا بوجھ انصار عباسی صاحب پر ڈال رہے تھے ، انہوں نے کہا تھا کہ یہ سیل تھا اور کسی کے ساتھ شیئر نہیں کیا۔
وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل نے کہا کہ اب پروسیڈنگ آگے بڑھنی چاہئیں جن کے نام ہیں وہ جوابی بیان حلفی جمع کرائیں۔ چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ اگر پاکستان بار کونسل یہ کہہ رہی ہے جو بیان حلفی لکھا ہے وہ درست ہے تو آپ اس عدالت کے ہر جج پر شک کر رہے ہیں، اس بیان حلفی کا میاں ثاقب نثار کے ساتھ کچھ نہیں اس کے ساتھ جو کرنا ہے کریں، اس بیان حلفی نے اس عدالت کے ہر جج کو مشکوک بنایا ہے۔
عدالت نے توہین عدالت کی ابتدائی سماعت کا آغاز کردیا۔ رانا شمیم کے وکیل لطیف آفریدی نے کہا کہ جب رانا شمیم اس کیس سے فارغ ہوجائیں گے تو ان کے خلاف ایکشن لیں گے جنہوں نے یہ بیان لیک کیا، میرے کلائنٹ کو نہیں پتہ تھا یہ توہین عدالت ہو جائے گی۔
انصار عباسی نے کہا کہ رانا شمیم کو شاید یاد نہ ہو کہ ان سے میری بات خبر شائع ہونے سے پہلے ہوئی تھی ، شاید ان کو یاد نہیں ان سے میری جو بات ہوئی وہ اسٹوری میں بھی موجود ہے، انہوں نے مجھے میسج کے ذریعے کنفرم کیا تھا کہ یہ بیان حلفی درست ہے، رانا شمیم نے مجھے نہیں بتایا کہ یہ دستاویز ذاتی اور ناقابل اشاعت ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ تین دن سے خبر چل رہی ہے کسی کے دفتر میں انہوں نے بیان حلفی دیا ہے۔ اٹارنی جنرل نے رانا شمیم سمیت دیگر کے خلاف چارج فریم کرنے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اگر رانا شمیم اپنی غلطی نہیں مانتے تو ان کے خلاف چارج فریم کیا جائے ، وہ اس کیس میں توہین عدالت کے مرتکب ہوئے۔
ہائی کورٹ نے 7 جنوری کو رانا شمیم ، اخبار کے مالک ، ایڈیٹر اور صحافی انصار عباسی کے خلاف توہین عدالت میں فرد جرم عائد کرنے کی تاریخ مقرر کردی۔ کیس کی مزید سماعت سات جنوری تک ملتوی کردی گئی۔