23 نومبر کو اٹھنے والی مزاحمتی تحریک بتدریج اپنی قوت بڑھاتی ایک منظم عوامی مزاحمت میں بدل گئی ہے جس سے بلوچ سماج میں پہلی بار ایک امنگ پیدا ہوئی ہے اور عام لوگ 75 سالوں کے جبر و تشدد کے بعد ایک نئی طاقت پا کر اس تحریک سے وابستہ ہو رہے ہیں جس کی بنیاد بالاچ مولا بخش کی شہادت کے بعد پڑی تھی۔
موجودہ بلوچ تحریک میں ریاست کے ساتھ منسلک 75 سالوں کے دوران غالباً یہ پہلا موقع ہے جب جبر اور تشدد کی مخالفت کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے اغوا شدہ یا جبری جدا کیے گئے علاقوں کی بات کی جا رہی ہے۔
بلوچ زمین کے تاریخی حصے کوہ سلیمان میں بلوچ آبادی کی کالونائزڈ پیمانے کی ذہن سازی اور انہیں جبراً بلوچ اور بلوچستان سے توڑنے کی 75 سالہ کوششوں کو اس تحریک نے بھرپور ضرب لگائی ہے۔
ریاستی بندوبست میں تشکیل شدہ موجودہ بلوچستان کی سرحدوں سے آگے ڈیرہ غازی خان اور تونسہ کے بلوچوں نے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی قیادت میں ' بلوچ نسل کشی بند کرو' لانگ مارچ کا جو تاریخ ساز استقبال کیا اس اتحاد اور قومی جذبے کی نظیر گذشتہ 75 سالوں میں نہیں ملتی۔ بلوچستان پر استبداد کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی کی صورت میں ایک نئی جڑت اور قومی تفاخر کے احساس کے ساتھ بلوچ جہاں بھی کہیں بستے ہوں اپنے آپ کو اب ایک سمجھنے لگے ہیں۔
ڈیرہ غازی خان اور تونسہ جیسے علاقے جنہیں ایک شعوری سازش کے تحت بلوچ اور بلوچستان سے کاٹ کر الگ کیا گیا تھا ان کے متعلق مقتدر قوتوں کا راسخ خیال تھا کہ 75 سالوں کی محنت کا حاصل وصول ان علاقوں کی بلوچ آبادی کا بلوچوں سے ثقافتی، قومی، لسانی اور قوم پرستانہ خیالات سے الگ ایک من چاہا سیاسی بیانیہ ہو سکتا ہے۔ مقتدر قوتیں اپنی 75 سالہ کوششوں کے باعث اس زعم میں مبتلا تھیں کہ یہ علاقے کبھی اور کہیں پر بھی خود کو بلوچستان اور بلوچ مفادات سے ہم آہنگ نہیں رکھیں گے مگر یہ ساری محنت ایک لانگ مارچ سے یوں غارت ہو گئی کہ اب اس کا نقصان وفاقی مقتدرہ کئی سالوں کے جتن کے باوجود پورا نہیں کر سکتی۔
دوسری جانب اس تحریک کا دائرہ کار بلوچستان میں بھی اور سندھ میں شامل خصوصاً کراچی کے بلوچ علاقوں کے اندر عوامی مقبولیت کو لے کر روز بروز وسیع تر ہوتا جا رہا ہے۔ بلوچستان بھر میں اس تحریک نے عوام کو کئی سالوں کے بعد دوبارہ منظم اور متحرک کر دیا ہے۔ بلوچستان میں سیاسی و مسلح مزاحمتی تحریک کو کچلنے کے لیے قوم پرست عوامی جماعت اور طلبہ تنظیم پر ریاستی کریک ڈاؤن کے دوران گذشتہ بیس بائیس سالوں میں سینکڑوں افراد کو ہلاک کر دیا گیا، ہزاروں لوگ جبری اغوا کیے گئے اور لا تعداد مسخ لاشیں بلوچستان کے طول و عرض میں پھینکی گئیں۔ اس کے ساتھ غیر ریاستی عناصر کو انہی مقاصد کے لیے مسلح کیا گیا جنہوں نے پورے بلوچستان میں ڈر اور خوف کی ایک لامتناہی فضا پیدا کرنے کے انتھک جتن میں ہر وہ عمل کیا جس کی ان سے توقع کی جاتی تھی۔ اس ڈر اور خوف نے سیاسی ماحول کو تہس نہس کیا۔ خوف کی اس فضا نے بلوچ سیاست، ثقافت، ادب، کلچر تعلیم غرض علمی ماحول تک کو شدید متاثر کیا۔ بندوق کے زور پر پیدا کیے گئے ڈر اور خوف کے سبب ایک سیلف سنسرشپ کے ماحول نے جنم لیا تھا۔ ہر فرد اور ہر ادارے نے انفرادی و اجتماعی صورت میں خود کو سنسرشپ میں ڈال کر ایسے کسی بھی انفرادی و اجتماعی عمل سے گریز کیا جو ممکنہ طور پر ان کے لیے کسی طرح کے جانی یا معاشی نقصان کا سبب بن سکتا تھا۔
ڈر اور خوف کے ماحول میں کئی سالوں کی اس خود ساختہ انفرادی و اجتماعی سنسرشپ اور خاموشی میں بریک اس وقت آیا جب سرکاری سرپرستی میں ڈیتھ سکواڈ نے مئی 2020 میں تربت کے نواحی گاؤں ڈنک میں ڈکیتی کی غرض سے ایک گھر میں داخل ہو کر ملک ناز نامی ایک گھریلو خاتون کو قتل اور اس کی 4 سالہ بیٹی برمش Bramsh کو گولی مار کر زخمی کر دیا۔ اس اچانک واقعہ نے بلوچ سماج کو تہہ و بالا کر دیا۔ اس واقعہ سے مقتدرہ کی برسوں کی محنت یکلخت اکھڑ گئی۔ خوف زدہ اور سہمے سماج نے سیاسی شعور کی صورت میں انگڑائی لے کر احتجاجی ریلیوں کے ذریعے خود کو منظم بنانے کی دوبارہ ایک کامیاب کوشش کی جو بلوچ قومی جماعت اور طلبہ تنظیم پر پابندی کے کئی سالوں بعد سامنے آئی۔
یہیں پر برمش کے نام سے ایک تحریک نے جنم لیا۔ اس کو نوجوان طالب علم حیات بلوچ کی شہادت نے مزید مہمیز دیا اور اس تحریک کو منظم سیاسی شکل دینے کی راہ ہموار کی۔ کراچی یونیورسٹی کے طالب علم حیات بلوچ کو اسی سال 2020 میں ریاست کی آزادی کے دن سے ایک روز پہلے گھر کے قریب بوڑھے والدین کے سامنے ایف سی کے اہلکاروں نے دیدہ دلیری کے ساتھ گولیاں مار کر قتل کر دیا۔ حیات بلوچ کی شہادت سے برمش کمیٹی بلوچ یکجہتی کمیٹی کے نام پر ظہور میں آئی جس نے بلوچ جدوجہد کی سیاسی مزاحمت کو کریمہ بلوچ کی شہادت کے ساتھ ناقابل تسخیر بنا دیا۔ کریمہ بلوچ جو سیاسی مزاحمت کے سبب بلوچ سماج میں پہلے سے علامتی کردار بن گیا تھا، اب محض ایک فرد کا نام نہیں رہا بلکہ شہادت کے ساتھ ہی بلوچوں کے لیے منظم قومی تحریک اور مزاحمت کی ایک تابندہ تاریخ بن چکا تھا۔ ملک ناز کی شہادت سے وجود میں آئی خود رو تحریک جو بلوچ یکجہتی کمیٹی کا نام پا کر بلوچ سماج میں آہستہ آہستہ جڑیں پکڑ رہی تھی، کریمہ بلوچ کے سیاسی شاگردوں ماہ رنگ، صبیحہ، سمی اور آمنہ جیسی نڈر عورتوں نے سنبھال کر اس قدر منظم اور متحرک بنا دی جس کا تصور کم از کم اتنی مختصر مدت میں کسی کے وہم و گماں میں نہ تھا۔
نومبر 2023کے آخری ایام میں جب یہ سال الوداعی لمحات کی جانب بڑھتا جا رہا تھا تو تربت میں سی ٹی ڈی کے ہاتھوں بالاچ مولا بخش کی شہادت کا واقعہ پیش آیا۔ یہ معمول کا ایک واقعہ ہوتا جیسا کہ اس سے متعلق مقتدر قوتیں خیال کر چکی تھیں مگر تب بلوچ سماج سیاسی شعور کی انتہا تک پہنچ چکا تھا۔ عام لوگ خوف اور ڈر سے پرے منتظر تھے کہ کوئی ان کی قیادت کا بیڑا اٹھائے۔ ایسے میں کریمہ بلوچ کے سیاسی کاروان سے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اس فریضہ کی ادائیگی کے لیے سامنے آئیں۔ بالاچ مولا بخش کا قتل ایک تاریخی موومنٹ کو ابھارنے کا وسیلہ بنا۔
سی ٹی ڈی بلوچستان میں فیک انکاؤنٹر کے ذریعے قتال کا ایک سلسلہ کئی مہینوں سے جاری رکھے ہوئے تھا جس کی زد میں 23 نومبر تک درجنوں افراد آئے تھے مگر بالاچ مولا بخش کے قتل کے بعد جبر اور تشدد کے خلاف سیاسی مزاحمت کی تاریخ اپنے سفر کے اگلے مرحلے میں ہے اور یہ سفر بلوچ اتحاد، تحریک، تنظیم اور قومی جذبات کی ترجمانی کی تحریک بن گیا ہے۔ مند سے تونسہ تک منظم اس عوامی تحریک کے پاس باصلاحیت اور پر اعتماد لیڈر، ایک واضح مقصد اور طے شدہ منزل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسے سیاسی شعور اور قومی غلامی کا ادراک بھی ہے اور یہ سفر رواں ہے۔