23 جنوری کو وزیر خزانہ جناب اسد عمر صاحب نے فنانس بل 2019 میں دوسری ترمیم قومی اسمبلی میں پیش کی جسے منی بجٹ کہا جاتا ہے۔ منی بجٹ کا نام سنتے ہی عوام و کاروباری حضرات نئے ٹیکسوں اور مہنگائی کے طوفان کا یقین کیے ہوتے ہیں جیسا کہ پچھلی حکومتوں کے دور میں ہوتا آیا ہے۔ مگر تبدیلی کا نعرہ لیے پاکستان تحریک انصاف کے پہلے ہی دور میں منی بجٹ کا مطلب ہی تبدیل ہو گیا۔ تمام حلقوں کی طرف سے اس دوسری ترمیمی بل کی نہ صرف تعریف کی جا رہی ہے بلکہ معاشی ماہرین بھی اس بجٹ کی تعریف کیے بغیر رہ نہیں سکے۔ اس بجٹ کے ذریعے سرمایہ کار و کاروباری حلقوں کو ریلیف دیا گیا ہے اسی لئے اسے اقتصادی پیکج کا نام دینا بے جا نہ ہو گا۔
ٹیکس فائلرز کو مزید سہولیات دی گئی ہیں
اس پیکج میں چھوٹے کاروبار و زراعت کو ٹیکس چھوٹ دی گئی ہیں جبکہ برآمدات سے تعلق رکھنے والی مینوفیکچرنگ صنعت کے خام مال کی درآمدات پر نہ صرف ڈیوٹیاں کم کی گئی ہیں بلکہ ایکسپورٹرز کے لئے ریفنڈ بانڈز کا اجرا بھی کیا جا رہا ہے تاکہ ملک میں صنعت کاری فروغ پائے اور برآمدات میں اضافہ ہو سکے۔ ٹیکس فائلرز کو مزید سہولیات دی گئی ہیں جبکہ نان فائلرز کو گاڑیوں کی خرید و فروخت ایک مقررہ حد تک اجازت دینے جیسے اقدامات کیے جا رہے ہیں تاکہ ملک میں بزنس ایکٹیویٹی میں اضافہ ہو اور بینک ڈیپازٹس میں میں بہتری آئے۔
پچھلی حکومت نے ریکارڈ قرضے لیے
منی بجٹ پر اپوزیشن کا اعتراض بھی اپنی جگہ درست ہے۔ ان کے مطابق ریوینیو ہدف پورا نہ ہونے کی وجہ سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں اضافہ ہوگا جبکہ ملک اور زیادہ مقروض ہو سکتا ہے۔ یہ دعویٰ ان سیاسی جماعتوں کی طرف سے سامنے آ رہا ہے کہ جن کو تین تین بار حکومت ملی مگر ان کے دور میں ملک قرضوں کی دلدل میں دھنستا چلا گیا۔ خاص کر پچھلی حکومت نے ریکارڈ قرضے لیے اور پاکستان کا مجموعی بیرونی قرضہ 60 ارب ڈالر سے بڑھ کر 95 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا۔ موجودہ حکومت نے پہلے ترمیمی بل کے ذریعے ریوینیو شارٹ فال کو پورا کرنے کی کوشش کی اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کے لئے دوست ممالک سے سرمایہ کاری کے لئے عملی اقدامات کیے۔
وزارت خزانہ نے ایک ایسے پیکج کی داغ بیل ڈالنے کا اعادہ کیا کہ جو کاروبار دوست ثابت ہو سکے
حکومت کی ان کوششوں کے عوض چین، سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کی طرف سے پاکستان کی مالی امداد کی گئی اور سرمایہ کاری کے معاہدے عمل میں آئے۔ اس بہتر پوزیشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تحریک انصاف کی وزارت خزانہ نے ایک ایسے پیکج کی داغ بیل ڈالنے کا اعادہ کیا کہ جو کاروبار دوست ثابت ہو سکے۔ اس منی بجٹ کو پیش کر کے حکومت کا یہ دعویٰ ہے کہ اس نے قوم سے کیا گیا اپنا وعدہ پورا کر دیا اور اب ملک اپنے پیروں پر کھڑا ہو سکے گا۔ حکومت کا دعویٰ اپنی جگہ مگر کاغذوں پر تصویر کشی سے کبھی زندہ ماحول تعمیر نہیں ہوتے کہ جب تک عزم نہ ہو۔
ریفنڈ بانڈز تین سال کی میعاد کے ہوں گے جن پر 10 فیصد شرح منافع دیا جائے گا
ایکسپورٹر کو ریلیف دینے کے لئے 200 ارب روپے کے ریفنڈ بانڈ کا اجرا کیا جا رہا ہے جس سے ریوینو شارٹ فال کو کنٹرول کرنے میں مدد ملے گی۔ اس کے علاوہ بینکوں اور پچاس کروڑ سے زائد منافع کمانے والی کارپوریٹ کمپنیوں پر سپر ٹیکس کی شرح کو برقرار رکھا گیا ہے۔ منی بجٹ میں کوشش کی گئی ہے کہ پاکستان کو درآمدات پر مبنی بزنس ایکٹیویٹی کی بجائے برآمدات پر مبنی معاشی ترقی کی طرف لے جایا جائے۔ اس حوالے سے ترمیمی بل کے مسودہ میں عملی اقدامات بھی کیے گئے ہیں۔ ان اقدامات میں ریفنڈ بانڈز کا اجرا بہت اہم ہے۔ ریفنڈ بانڈز تین سال کی میعاد کے ہوں گے جن پر 10 فیصد شرح منافع دیا جائے گا۔ یہ بانڈ ان ایکسپورٹرز کے لئے ہوں گے جو اپنی برآمدات میں سالانہ 10 فیصد اضافہ کرتے ہیں۔
ان بانڈز کے عوض ایکسپورٹ کمپنیوں کو بینکوں سے باآسانی قرضہ حاصل ہوگا
پچھلے کچھ سالوں میں ڈیوٹی ڈرا بیک کی مد میں برآمدکنندگان کے 200 ارب روپے حکومت کی طرف پھنسے ہوئے ہیں۔ یہ رقم حکومت پر لائبیلیٹی ہے جو خزانہ خالی ہونے کی وجہ سے جاری نہیں کی جاتی۔ ریوینو ٹارگٹ میں سے اس رقم کے نکل جانے سے حکومت کو مزید شارٹ فال کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا مگر اب ان بانڈز کے اجرا سے ایک طرف جہاں حکومت کو فوری طور پر خزانہ خالی نہیں کرنا پڑ رہا بلکہ دوسری طرف ان بانڈز کے عوض ایکسپورٹ کمپنیوں کو بینکوں سے باآسانی قرضہ حاصل ہوگا۔ واضح رہے کہ یہ بانڈز لازمی زکوٰۃ سے مبرا ہوں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان ریفنڈ بانڈ کے اجرا سے پاکستان تحریک انصاف اپنے تین چار سال میں واجب الادا 200 ارب کے ریفنڈز سے جان چھڑائی ہے اور یہ قرضہ لینے کی ایک اور شکل ہے یا پھر اس کے پیچھے حکومت کی نیٹ ایکسپورٹ کے ذریعے زرمبادلہ کے ذخائیر میں اضافہ اور ایکسچینگ ریٹ کنٹرول ہے۔
چھوٹے کاروباری صلاحیت کے حامل افراد باآسانی قرضہ حاصل کر سکیں گے
اگر ان بانڈز کو صرف قرضہ کے طور پر لیا گیا تو مستقبل قریب میں یہ بانڈ ایک دوسرے سرکلر ڈیٹ یا گردشی قرضے کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ جن صنعتوں کے خام مال کی درآمدات پر ریگولیٹری ڈیوٹی میں کمی تجویز کی گئی ہے ان میں جوتوں، ٹینیریز، چمڑا، دستانے، فرنیچر، سریمکس، ہوم اپلائینسز، کیمیکل مینیوفیکچرنگ اور پلاسٹک مینیوفیکچرنگ شامل ہیں۔ منی بجٹ میں جہاں بینکوں پر سپر ٹیکس کے نفاذ کو 2023 تک کم کرنے کی بجائے 4 فیصد سالانہ مقرر کیا گیا ہے تو دوسری طرف بینکوں کے ان قرضہ جات پر آمدن کمانے پر ٹیکس پر چھوٹ دی گئی ہے جن کا براہ راست تعلق چھوٹی صنعتوں، چھوٹے گھروں کے لئے قرضہ اور فارمنگ سے ہے۔ ان قرضہ جات سے کمائی جانے والی آمدن پر اب 35 فیصد کی بجائے 20 فیصد ٹیکس لگا کرے گا، اس اقدام کی وجہ سے بینکوں میں ان سیکٹرز کو قرضہ دینے کے رجحان میں اضافہ ہو سکتا ہے جس سے چھوٹے کاروباری صلاحیت کے حامل افراد باآسانی قرضہ حاصل کر سکیں گے۔
لگژری گاڑیوں کی درآمدات کنٹرول کرنے کے لئے درآمدی گاڑیوں پر ڈیوٹی کی شرح میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے
بزنس ایکٹیویٹی میں اضافے کے لئے حکومت نے نان فائلر کے لئے 1300 cc تک کی گاڑیوں کی خرید و فروخت کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ ٹرانسفر فی اور ایڈوانس ٹیکس کی شرح نان فائلر کے لئے بڑھا دی ہے۔ اس کے علاوہ لگژری گاڑیوں کی درآمدات کنٹرول کرنے کے لئے درآمدی گاڑیوں پر ڈیوٹی کی شرح میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔ 1800cc سے اوپر کی گاڑیوں پر 10 فیصد ایکسائز ڈیوٹی لگا دی گئی ہے۔ سمارٹ فونز پر بھی ڈیوٹی و ایڈوانس ٹیکس لگا دیا گیا ہے جو فائلر و نان فائلر کے لئے ایک شرح سے نافذ ہوں گے۔
اب فائلر حضرات بینکوں سے کیش بغیر ایدوانس ٹیکس نکلوا سکیں گے
ایک طرف جہاں ٹیکسوں میں اضافہ کیا گیا، دوسری طرف ان میں ریلیف بھی دیا گیا ہے۔ اب فائلر حضرات بینکوں سے کیش بغیر ایدوانس ٹیکس نکلوا سکیں گے جبکہ نان فائلر پر 0.6 فیصد کی شرح برقرار رہے گی۔ لسٹڈ سکیورٹیز پر کیپٹل لاس کو اب ایک سال کی بجائے تین سالوں تک کیپٹل گین (منافع) سے نیٹ آف کیا جا سکے گا جبکہ بروکریج ہاؤس پر ایڈوانس ٹیکس ختم کر دیا گیا ہے۔ گروپ کمپنیوں کو تقویت دینے لے لئے کہ دو دفعہ ٹیکس نہ لگے، انٹر کارپوریٹ ڈیویڈنڈ پر استثنیٰ دیا جا رہا ہے تاکہ ہولڈنگ کمپنی اپنی انویسٹمنٹ کی شرح تک سبسڈری کمپنی کے نقصان (لاس) کا ریلیف لے سکے۔
پہلی دفعہ کسی حکومت نے طویل وقتی پالیسی بنانے پر توجہ صرف کی ہے
اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ منی بجٹ بظاہر کاروبار دوست نظر آتا ہے مگر اس کے پیچھے نیت کا فقدان پاکستانی اقتصادیات کے لئے شدید بحران کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ ریوینیو شارٹ فال کو پورا کرنے کے لئے پہلی دفعہ کسی حکومت نے طویل وقتی پالیسی بنانے پر توجہ صرف کی ہے۔ اس پیکج یا منی بجٹ کے ذریعے ٹیکسوں کی بجائے ذرائع آمدان کو بڑھانے کی طرف کوشش کی گئی ہے اور اگر حکومت اس میں کامیاب ہو جاتی ہے تو پاکستانی معیشت کو ایک سہارا ملے گا۔ پاکستان ایک درآمدی ملک کی بجائے برآمدی ملک بن کر ابھرے گا جبکہ بزنس کرنے میں آسانی کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہوگا۔