:وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز نے ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں اظہار رائے پر کوئی پابندی نہیں ھے کچھ چینلز اور اخبارات خاص ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں
وزیراعظم پاکستان اور میں نے کبھی بھی کسی چینل اور اخبارات کے اشتہارات روکنے کا حکم نہیں دیا۔ شبلی فراز نے مزید کہا کہ وہ ادارے جو حکومت پر تنقید کرتے ہیں ان کو بھی اشتہارات دیے گئے ہیں اور پی ٹی آئی کی حکومت روایتی حکومت نہیں ہے نئی پارٹی نئی سوچ کے ساتھ حکومت چلا رہی ہے۔حقائق خود بولتے ہیں آئندہ آجلاس میں اعدادوشمار بتائیں گے کہ کن کن چینلز اور اخبارات کو کتنے کتنے اشتہارات دیئے گئے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ موجودہ حکومت اشتہارات کی پالیسی کو ٹول کے طور پر استعمال نہیں کر رہی ثبوت کا ڈیٹا آئندہ اجلاس میں فراہم کر دیں گے۔تنقید کریں مگر حکومت کا موقف بھی سنیں لوگوں کوگمراہ نہ کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ حکومت، اپوزیشن اور تیسرا فرق صحافتی ادارے ہیں ان کا اپنا طریقہ کار ہے۔
سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ اشتہارات کی پالیسی اور اس کا استعمال ہمیشہ سے بلا تفریق تمام حکومتیں ایک طرح استعمال کرتی رہی ہیں۔ ہم سب اس گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔اس پالیسی کو قتل و غارت کا ٹول بنایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومتیں کبھی ایک اخبار کو اشتہارات سے نواز دیتی ہیں اور کبھی اس کی تقسیم تک روک لی جاتی ہے۔ ٹی وی چینلز کی ریٹنگ سیاستدانوں کی صوابدید پر ہوتی ہے۔
صدر پارلیمانی رپورٹر ایسوسی ایشن بہزاد سلیمی نے قائمہ کمیٹی کو بتایا صحافیوں کے تحفظ کے بل کو اپوزیشن نے مسترد کر دیا جس سے ہماری19 سال کی محنت رائیگاں گئی۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی وجہ سے صحافیوں کے حقوق کے تحفظ کا بل منظور نہیں ہوا۔اپوزیشن ہمیشہ صحافیوں کے ساتھ رہی ہے مگر اس دفعہ بد قسمتی سے اپوزیشن نے مخالفت کی جس کی وجہ سے بل نا منظور ہوا۔ اپوزیشن ترمیم لا سکتی تھی۔مختلف اداروں میں 16 صحافی بر طرفی کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے گئے ہیں۔اگر ہمارے صحافیوں کے مسائل حل نہ کیے گئے تو اپنا لائحہ عمل اختیار کیا جائے گا۔ سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ بل کی مخالفت ٹھوس وجوہات کی وجہ سے کی گئی ہے۔ کمیٹی اجلاس میں بھی بل کی مخالفت کی تھی اور ابھی بھی اس پر قائم ہوں۔ اس بل کی بدولت کسی کو ٹول نہیں بنانے دیں گے۔قانونی تحفظ کیلئے کمیٹی اور پارلیمنٹ کردار ادا کرے گا۔ جس پر چیئرمین کمیٹی فیصل جاوید نے کہا کہ پیمرا کے بل کو کمیٹی اجلاس میں واپس لا کر تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر جائزہ لیا جائے گا اور بل میں خامیوں کو دور کر کے صحافیوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا۔ بل کی بدولت صحافتی ادارے صحافیوں کا استحصال نہیں کر سکیں گے۔
قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں پی ٹی وی سپورٹس کے معاملے کا جائزہ لیا گیا۔ پی ٹی وی سپورٹس میں سابق ڈائریکٹر سپورٹس ڈاکٹر نعمان نیاز کو ڈائریکٹر پی ٹی وی سپورٹس کے ہٹا کر ڈائریکٹر پی ٹی وی گلوبل لگانے پر سینیٹر انوار الحق کاکڑ کے سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ شعبہ سپورٹس میں 72 آڈٹ پیرا ٓئے تھے انکوائری چل رہی ہے اس لئے ان کا تبادلہ کر دیا گیا ہے۔جس پر چیئرمین کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں وزارت اطلاعات ونشریات میں کیے گئے تبادلوں، اسٹرکچراور ملازمین کی تنخواہوں کے بارے ایجنڈا رکھنے کا فیصلہ کیا۔ سینیٹر انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ پسند نہ پسندکا کلچر ختم ہونا چاہے وہ ملازمین جو بہتر کارکردگی دکھا رہے تھے ان کو مزید موقع دیا جاتا نہ کہ بہتر کام پر تبادلہ کر دیا جائے۔
قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ قومی اشتہارات کی پالیسی پر وزارتِ اطلاعات ونشریات کام کر رہے رہی ہے اور متعلقہ تمام ا سٹیک ہولڈرز کے ساتھ میٹنگ کی جا رہی ہے۔ڈرافٹ فائنل ہونے پر قائمہ کمیٹی کو آگاہ کر دیا جائے گا۔قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ نیشنل اشتہارات پالیسی میں میڈیا ورکرز کے مفادات کو مزید محفوظ بنا رہے ہیں اور علاقائی میڈیا دفاتر کو مزید تحفظ دیا جائے گا۔ڈیجیٹل اشتہارات پالیسی متعارف کروائی جا رہی ہے۔ اشتہارات کی ایجنسیوں کے کردار کو قومی دھارے میں لایا جا رہا ہے اور پی آئی ڈی کے ذریعے سرکاری اشتہارات کی ادائیگی یقینی بنائی جا رہی ہے۔ قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ڈیجیٹل میکنزم پر کام ہو رہا ہے۔ پالیسی میں اشتہارات کا بڑا حصہ ہے۔ پرنٹ میڈیا کے لیے علیحدہ قواعدو ضوابط ہیں اشتہارات کے لیے 25 فیصد علاقائی کوٹہ ہے۔ APNS سے رجسٹر ایجنسیوں کو PID اشتہارات دیتی ہیں۔کلاسیفایڈ اشتہارات کی 100 فیصد ادائیگی PID کرتا ہے. ڈسپلے اشتہارات کے بل کی 85 فیصد ادائیگی اخبارات، ٹی وی، ریڈیو کو پی آئی ڈی کرتی ہے جبکہ 15 فیصد ایجنسیوں کے ذریعے کی جاتی ہے۔ٹی وی اشتہارات کے لیے سپریم کورٹ کی ہدایت پر ریٹس کو 4 کیٹیگری میں تقسیمِ کیا گیا ہے۔کیٹیگر ی ون کے اشتہارات کے ریٹس 1 لاکھ40 ہزار روپے، کیٹیگری 2 میں 1 لاکھ، کیٹیگری 3 میں 75 ہزار اور کیٹیگری 4 میں 50 ہزار روپے مقرر کیے گئے ہیں۔ سینیٹر انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ ریجنل چینلز کو بھی پہلی کیٹیگری میں شامل کرنا چاہیے ان کے دیکھنے والوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک موثر میکنزم کی ضرورت ہے جو ان مسائل کا حل نکال سکے۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر فیصل جاوید کے سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ اشتہارات کے ریٹ سرکاری اور پرائیوٹ چینلز پر یکساں ہیں۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ سرکاری اشتہارات نان پرائم ٹائم میں نہیں چلتے۔ میڈیا پلان بنایا جائے۔انہوں نے کہا کہ مجموعی طور پر جامع پالیسی کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں میں شعور اور میڈیا کی گروتھ کے حوالے سے حکومت کو جارحانہ منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ انٹرٹینمنٹ چینل پر سرکاری اشتہارات نہیں چلتے۔ پی ٹی وی، FM ریڈیو پر سرکاری اشتہارات چلائے جائیں۔ حکومت موثر مارکیٹنگ پلان لائے۔ میڈیا کی گروتھ روکی ہوئی ہے اور اس کو بہتر بنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ وزارتِ کے پاس ایک ایسا تحقیق کا شعبہ ہونا چاہیے جو لوگوں سے پوچھے کے کیا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ڈی جی پی آئی او نے کہا پیمرا کے پاس ریٹنگ کا میکنزم موجود ہے جو مانیٹرنگ کرتا ہے۔ سینیٹر خوش بخت شجاعت نے کہا کہ ریٹنگ کے چکر میں پوری قوم کو تباہ کر دیا ہے۔علاقائی چینلز کے پروگراموں میں اخلاقیات نظر آتی ہے مگر ریٹنگ والے چینلز کو گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر دیکھنا محال ہو چکا ہے۔ سر شرم سے جھک جاتے ہیں۔ ہماری نسلوں کو تباہ کیا جارہا ہے اور ٹی وی چینلز پر بیہودہ گیم شو کے ذریعے بیہودگی پھیلائی جا رہی ہے۔انٹرٹینمنٹ کا معیار بہت گر چکا ہے۔ گھروں میں دیکھنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ سب کو ایسی پالیسی بنانی چاہیے جو کسی بھی حکومت کے ہاتھوں ٹول کے طور پر استعمال نہ ہو.