صحافی اسد علی طور نے کہا ہے کہ ججوں کے ناموں کے مسترد ہونے سے عدلیہ بہت بڑے بحران کی جانب بڑھ گئی ہے کیونکہ جوڈیشل کمیشن کی پریس ریلیز بہت دھماکہ خیز ہے اور اس سے بھی بڑی چیز یہ ہے کہ اس کے جاری ہونے کے کچھ ہی دیر کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے بھی اس کے ردعمل میں ایک تردیدی خط جاری کر دیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں 4 ججوں کے ناموں کو مسترد جبکہ پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے نام کو موخر کیا گیا تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال ایک دم اجلاس چھوڑ کر چلے گئے اور کہا کہ میں ایک نام ریجیکٹ جبکہ باقی چار ناموں کو ڈیفر کر رہا ہوں حالانکہ جوڈیشل کمیشن میں چار ناموں کو مسترد کیا گیا تھا۔ چیف جسٹس نے اجلاس چھوڑا تو ان کے پیچھے پیچھے جسٹس اعجاز الاحسن بھی چلے گئے۔
اسد علی طور کا کہنا تھا کہ اس کے بعد سپریم کورٹ کی جانب سے ایک پریس ریلیز جاری کی گئی ہے جس میں کہا گیا کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے جسٹس ریٹائرڈ سرمد عثمانی، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ کے کہنے پر ان ناموں پر غور کو موخر کر دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس پریس ریلیز کے جواب میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جوابی خط لکھا جس میں انہوں نے واضح طور پر تحریر کیا کہ اصل میں جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں کیا کیا ہوا تھا۔ انہوں نے خط میں لکھا کہ لاہور ہائیکورٹ کے جونئیر جج اور سندھ ہائیکورٹ کے تینوں جونئیر ججوں کو میں نے، جسٹس سردار طارق مسعود، اٹارنی جنرل اشتر اوصاف، وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور پاکستان بار کونسل کے نمائندے اختر حسین کیساتھ ریجیکٹ کیا۔
اسد علی طور نے تہلکہ خیز خبر دیتے ہوئے کہا کہ معزز چیف جسٹس کو اپنے ہی گھر میں بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کی صدارت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کی۔ ان کے ساتھ جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سجاد علی شاہ، ریٹائرڈ جسٹس سرمد جلال عثمانی، وفاقی وزیر اعظم نذیر تارڑ، پاکستان بار کونسل کے نمائندے اختر حسین، جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپین اور اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے امریکہ سے ویڈیو لنک کے ذریعے اس اہم اجلاس میں شرکت کی۔
انہوں نے بتایا کہ اجلاس شروع ہوا تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے نامزد کردہ پانچ ججوں کے ناموں کا اعلان کیا۔ ان میں پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس قیصر رشید خان، لاہور ہائیکورٹ سے جسٹس شاہد وحید، سندھ ہائیکورٹس سے جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس محمد شفیع صدیقی اور جسٹس نعمت اللہ شامل تھے۔
خیال رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خط میں قائم مقام سیکرٹری جے سی پی سے کہا ہے کہ وہ فوری طور پر میڈیا کو کمیشن کا فیصلہ جاری کریں، جس سے غیر ضروری قیاس آرائیوں اور غلط رپورٹنگ کو بھی روکا جائے گا کیونکہ میٹنگ بند دروازوں کے پیچھے ہوئی تھی۔ "امید کی جاتی ہے کہ تفصیلی منٹس ان تمام واقعات کی درست عکاسی کریں گے"۔