Get Alerts

پاکستان میں اربوں کے کاروبار کرنے والے پناہ گزینوں کا نوحہ : ''ہم ایک بینک اکاؤنٹ نہیں کھلوا سکتے'

پاکستان میں اربوں کے کاروبار کرنے والے پناہ گزینوں کا نوحہ : ''ہم ایک بینک اکاؤنٹ نہیں کھلوا سکتے'
 

مسلمہ گولیوں، بم دھماکوں، چاروں اطراف فضاں میں پھیلی آہوں سسکیوں، انسانی لاشوں اور جنگ ذدہ افغانستان سے دور 133 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع کوئٹہ شہر میں پیدا ہوئی، 1979 افغانستان میں آنے والے ثور انقلاب کے بعد روسی افوج افغانستان میں داخل ہوئی جس کے نتیجہ میں افغانستان میں اس وقت کے صدر سردار داؤد کی حکومت کا تختہ گرایا گیا، اور یوں افغانستان میں نہ رکنے والی ایک لمبی جنگ کا آغاز ہوا۔

 

 1979کو افغانستان میں آنے والے ثور انقلاب کے بعد مسلمہ کے والدین نے دیگر لاکھوں افغان پناہ گزین کی طرح پاکستان ہجرت کی، مسلمہ کی پیدائش کوئٹہ میں ہوئی وہ اس وقت اپنی زندگی کی 26  بہاروں میں سے 21 سال پاکستان میں بطور پناہ گزین کے طور پر گزار چکی ہیں۔

روئڈرک سکوچ نے سنہء 2008 میں عالمی ادراہ برایے پناہ گزین کے لئے  (افغان ریفیوجیز ان پاکستان ڈیورنک 1980 کے نام سے ریسرچ پیپر شائع کیا جس کے تحت 80 کی دہائی میں تیس لاکھ سے زائد افغانی باشندوں نے جنگ سے متاثر ہوکر پاکستان ہجرت کی، اور یوں ہجرت کا سسلسہ جاری رہا۔ مسلمہ نے بتایا کہ '' کہ جب میں 10 سال کی تھی تو ہمارا پورا گھرانہ پاکستان سے افغانستان منتقل ہوگیا جہاں ہم صرف پانچ سال ہی گزار سکے۔ جنگ زدہ حالات کے باعث روزگار اور تعلیم کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ جس کی وجہ سے افغانستان میں رہنا مشکل ہوگیا اور ہم واپس پاکستان ہجرت کر گئے۔ یہاں آکر میں نے ایک غیر سرکاری تنظیم کے توسط سے مڈوائف کا کورس مکمل کیا اور اب میں مختلف ہسپتالوں میں بطور مڈوائف اپنی خدمات سر انجام دے رہی ہوں۔

انہوں نے بتایا کہ پناہ گزین ہونے کے ناطے انہیں کسی بھی وقت نوکری سے برخاست کیا جاسکتا ہے اور اس سلسے میں انہیں سوشل پروٹیکشن حاصل نہیں مسلمہ کو تنخواہ کے حصول میں کافی مشکلات  کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چونکہ پناہ گزین ہونے کی وجہ سے ان کا کوئی بینک اکاونٹ نہیں ہے انہیں تنخواہ چیک کے ذریعہ ملتی ہے جس میں بھی مسلمہ کو اکثر و پیشتر مشکلات کا سامنا رہتا ہے اور دیگر روز مرہ کی معمولات بھی اس سے مختلف نہیں۔
مسلمہ کے مطابق ''میری تمام تر خدمات پاکستان کے لئے ہی ہیں لیکن اس کے بدلے میں  بطور پناہ گزین ہمارے بھی حقوق ہیں حکومت کو چاہئے کہ وہ ہمیں بینک اکاونٹس کھولنے کی اجازت دے تاکہ پاکستان میں مقیم پناہ گزین کے لئے آسانیاں پیدا ہو سکیں اور اس کے ساتھ ساتھ ہمیں دیگر تمام بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ ہم بھی باعزت شہری کی حثیت سے زندگی گزار سکیں۔  

اقوام متحدہ کی تنظیم برائے پناہ گزین (یو این ایچ سی آر) کے انفارمیشن آفیسر قیصر آفریدی نے بتایا کہ پاکستان میں اس وقت رجسٹرڈ (پی او آر)  پروف آف رجسٹریشن کارڈ ہولڈر افغان پناہ گزین کی کل تعداد1,421,946جن میں سے مردوں کی تعداد %54 جبکہ خواتین کل تعداد کا %46 فیصد بنتی ہے بلوچستان میں افغان پناہ گزین کی کل تعداد 325,732 ہے۔ قیصر آفریدی نے بتایا کہ 2006 سے2007 تک نادرا کے ذریعہ افغان پناہ گزین کی رجسٹریشن کو عمل میں لایا گیا۔ پاکستان میں مقیم 14 لاکھ سے ذائد افغان پناہ گزین(پی اور آر) پروف آف رجسٹریشن کارڈز رکھتے ہیں۔ تاہم ان کارڈز کی تنسیخ 30 جون 2020 کو ہوگی۔

انجمن تاجران بلوچستان کے جنرل سیکرٹری اللہ داد ترین کے نزدیک افغان مہاجرین کی جانب سے شروع کی جانے والی امپورٹ ایکسپورٹ کی تجارت  سے پہلے بلوچستان میں کوئی بھی امپورٹ، ایکسپورٹ سے واقف ہی نہیں تھا۔ بعد ازاں مقامی لوگوں نے امپورٹ، ایکسپورٹ کی تجارت شروع کی۔ ان افغان مہاجر تاجران نے نہ صرف بلوچستان بلکہ خیبر پختونخواہ اور بالخصوص کراچی میں بہت زیادہ تجارت کر رکھی ہے جس سے پاکستان کی معیشت پر کافی مثبت اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایاکہ'' افغان مہاجرین ایران کے ساتھ بڑے پیمانے پر چاول کی تجارت کرتے آرہے ہیں اور یہ تمام تجارت بہت بڑے سیکیورٹی رسک اور سخت شرائط کی بنیاد پر ہوتی ہے کیونکہ ان افغان مہاجر تاجران کو پاکستان میں بینکنگ کی سہولت اور لیگل ڈاکیومینٹس بنانے میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حکومت چاہئے کہ وہ ایس او پیز بناکر افغان مہاجر تاجران کو سہولت فراہم کرے۔ اگر یہی رقم انہوں نے دبئی اور کسی اور ملک منتقل کر دی تو پاکستان کی معیشت کو نقصان کا سامنا کرنا

پڑے گا۔’’

محمد آصف ترین کاروباری شخصیت کے ساتھ جی بی فیڈریشن پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے رکن اور پشین چیمبر آف کامرس کے صدر بھی ہیں۔ ان کے مطابق  چیمبر آف کامرس کی جانب سے افغان مہاجرین تاجران کو یہ سہولیات حاصل ہے کہ وہ اپنے پی او آر کارڈ کی بنیاد پر جائیداد کے مالک کے ساتھ اقرار نامہ  لکھتے ہوئے اپنے لئے دفتر کھول سکتے ہیں اور اس کے ساتھ انہیں نیشنل ٹیکس نمبر، ریٹرن، سیلز ٹیکس کے اجراء کی سہولت بھی حاصل ہے۔ اسی کارڈ کی بنیاد پر وہ  پاکستان کسٹمز میں سے کلئیرنگ بھی کرا سکتے ہیں، جبکہ حقیقیت دوسری جانب یہ ہے کہ تاجران تقریبا ان سہولیات سے مستفید نہیں ہو پا رہے ہیں۔  پاکستان میں افغان مہاجر تاجران کو کاروبار میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 

انہوں نے مذید بتایا کہ'' ملک کے چاروں صوبوں کے چیمبرز کی صورتحال افغان مہاجرین تاجران کے لئے مختلف ہے، یہ تاجران پاکستان میں بڑے پیمانے پر خشک میوہ جات کا کاروبار کرتے ہیں اور اس سے ملک کی معیشت کو کافی فائدہ پہنچتا ہے۔ اگر حکومت چیمبر آف کامرس کے ساتھ مل کر ایک بہتر پالیسی بناکر اس پالیسی پر عمل در آمد کرائے تو افغان مہاجر تاجران کو سہولیات کی فراہمی ممکن ہوسکے گی جس سے پاکستان کی معیشت کو مزید فائدہ ہوگا۔

اسماعیل پاکستان میں بطور پناہ گزین کی حثیت سے زندگی گزار رہا ہے انہوں نے بتایا کہ ''میں بچپن میں اپنے والدین کے ساتھ افغانستان سے پاکستان ہجرت کرکے آیا اور اب میں کوئٹہ میں اپنا کاروبار کر رہا ہوں۔ لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی میرا اپنا کوئی بینک اکاونٹ نہیں ہے۔ پناہ گزین ہونے کی وجہ سے مقامی پولیس کی جانب سے اکثر وبیشتر کافی تنگ کیا جاتا ہے۔ ایسا وقت بھی آیا ہے کہ میں نے 500 روپے رشوت کے بدلے پولیس سے جان چھڑائی ہے۔ اگر آج بھی افغانستان کے حالات ٹھیک ہوجاتے ہیں تو میں اپنے گھر کے تمام دیگر افراد کے ہمراہ واپس اپنے

ملک چلا جاؤں گا۔

 

صوبے کی بلوچ قوم پرست جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی نے 8 اگست 2018 کو کوئٹہ میں پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ 6 نکاتی یادداشت پر دستخط کرتے ہوئے  مرکزی حکومت کی تشکیل میں پاکستان تحریک انصاف کی کی حمایت کی تھی ان 6 نکات میں سے ایک نقطہ افغان مہاجرین کے باعزت انخلا کا تھا۔ جبکہ حالیہ بجٹ اجلاس میں بی این پی کے چئیرمین اختر مینگل نے اسمبلی کے فلور پر وفاقی حکومتی اتحاد سے علیحیدگی کا اعلان کیا ہے۔ 

بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء غلام بنی مری نہ صرف افغان مہاجرہن بلکہ ملک میں بسنے والے تمام دیگر مہاجرین کے باعزت انخلاء پر زور دیتے ہیں۔

 

انہوں نے بتایا کہ مہاجرین کی وجہ سے ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ شروع کے چند سالوں میں افغان مہاجرین کو کیمپوں کی حد تک محدود کیا گیا تھا لیکن حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے افغان مہاجرین نے شہروں میں آبادکاری شروع کردی جس سے حالات خراب تر ہوتے چلے گئے۔

غلام نبی مری کے مطابق افغان پناہ گزین کی وجہ سے مقامی افراد کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہماری جماعت نے وفاقی حکومت مہاجرین کے باعزت انخلا کر کے ان کے اپنے ممالک بھیجے جانے کی ہمیشہ سے بات کی ہے  کیونکہ مہاجرین کی وجہ سے ملک میں مسائل پیدا ہو رہےہیں، حکومت سمیت اقوام متحدہ کو اپنا کردار ادا  کرتےہوئے مہاجرین کے باعزت انخلا کو ممکن بنائے۔

جبکہ دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان نے 16 ستمبر 2018 کو کراچی میں اپنے ایک خطاب کے دوران پاکستان میں مقیم پناہ گزینوں کو شہریت دینے کی بات کی تھی۔

پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی صوبے کی سب سے بڑی پشتون قوم پرست جماعت ہے۔

پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے رہنماء و رکن صوبائی اسمبلی بلوچستان نصراللہ زیرے نے بتایا کہ "پاکستان نے جنرل ضیاء کے دور اقتدار میں اور اس کے بعد بھی افغان پناہ گزین کے نام پر دنیا بھر سے اربوں ڈالر امداد وصول کی جو کہ پناہ گزین افراد تک نہیں پہنچ سکی۔ 1978 کے بعد افغانستان میں تبدیلی آئی دنیا کی استعماری، شاونسٹ اور فاشسٹ ممالک نے بشمول اسلام آباد سے فوجی جرنیل ضیاالحق اور پھر بعد میں جنر مشرف نے امریکی استعمار کی قیادت میں افغانستان میں مداخلت کر کے جارحیت کا آغاز کیا جس کے بعد لاکھوں افغان اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کے فیصلے کے تحت پاکستان اور دیگر ممالک کو ہجرت کر نے پر مجبور ہوگئے۔  

نصراللہ زیرے کے مطابق یکے بعد دیگرے حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومت میں افغانستان کے حالات تبدیل ہو کر بہتر ہو چکے ہیں۔ لیکن اب بھی افغانستان کو امن کی جانب نہیں  جانے دیا جا رہا۔  افغان پناہ گزینوں نے افغانستان کے اندر تباہی اور برباد دیکھی اور کافی مشکلات سہی ہیں۔  یو این ایچ سی آر کے اسسٹڈ وولینٹئیرلی ریپارٹیشن پروگرام کے تحت سنہء 2002 سے لیکر اب تک 44 لاکھ تک افغان پناہ اپنے ملک کو واپس جا چکے ہیں، اگر افغانستان کے حالات ٹھیک ہوتے ہیں تو پاکستان میں مقیم تمام افغان پناہ گزین واپس اپنے ملک چلیں جائیں گے۔

بعد ازاں یو این ایچ سی آر کے میڈیا آفیسر قیصر آفریدی نے اس بات کی تصدیق کی کہ 2002 سے لیکر اب تک 44 لاکھ کے قریب افغان پناہ گزین اپنے ملک کو واپس جا چکے ہیں۔

علم السیاسیات کے پروفیسر اور بین الاقوامی قانون کے ماہر ڈاکٹر ملازم حسین نے بتایا کہ'' 14 دسمبر 1950 کو اقوام متحدہ کا ادراہ برائے پناہ گزین کا قیام عمل میں لایا گیا اور 28 جولائی1951 میں ہونے والے جنیوا کنونشن میں پناہ گزین کی داد رسی کے لئے ایک چارٹر پاس کیا گیا جس کے آرٹیکل 16 کے تحت پناہ گزین کو عدالتی رسائی اور انصاف کا حق دیا گیا۔ جبکہ شق 27 میں پناہ گزین کو شناخت دینے، اور شق 35 میں پناہ گزین کی مدد کے لئے یو این ایچ سی آر کا زکر کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ ہر سال 20 جون کی پناہ گزین کے عالمی دن کی مناسب سے مناتا اس دن کا مقصد دنیا بھر میں پناہ گزین کو درپیش مسائل اور انکی اہمیت سمیت معیشت پر پڑنے والے مثبت اور منفی اثرات کا جائزہ لینا ہے۔

 ڈاکٹر ملازم حسین نے پاکستان میں شہریت کے قانون سٹیزن شپ ایکٹ 1951 کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ اس قانون کی رو سے 1951 کے بعد پاکستان میں پیدا ہونے والا ہر شخص پاکستانی شہریت کا حامل ہوگا البتہ تمام مہاجرین جنہوں نے ( پی او آر ) پروف آف رجسٹریشن کارڈ حاصل کررکھے ہیں پاکستانی شہریت کیلئے اہل نہیں۔

 

افغانستان کی وزارت برائے مہاجرین و بحالی مہاجرین نے اپنے ایک مشترکہ پالیسی بیان میں کہا ہے کہ مغربی دنیا میں 688198 افغان پناہ گزین کے طور پر  زندگی گزار رہے ہیں  انہوں نے یورپ اور عرب ممالک کے ساتھ مہاجرین کے حوالے سے

مذاکرات کیے ہیں۔

 

 

مذکورہ وزارت کی موجودہ پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ  افغان پناہ گزین کو جنیوا کنونشن 1951 برائے پناہ گزین کی روشنی میں وہ سب حقوق حاصل ہیں جسے مغربی ممالک نے اپنے قانون کا حصہ بنا رکھا ہے۔ جبکہ پاکستان اور ایران میں معاملہ ایسا نہیں ہے۔

بیان کے مطابق جو افغان پناہ گزین افغانستان کے علاوہ دیگر ممالک کے پاسپورٹوں پر سفر کرکے عرب ممالک میں سرمایہ کاری کئے ہوئے ہیں انہیں اب مشکلات درپیش آنے لگی ہیں   جس کے بعد افغان وزارت خارجہ نے عرب ممالک کے ساتھ ہونے بوالے معاہدے کے تحت یہ طے کیا ہے کہ دیگر ممالک کے پاسپورٹ رکھنے والے افغان تاجران کے پاسپورٹ کو افغان پاسپورٹ کے ساتھ تبدیل کیا جائیگا جیسا کہ پاکستانی پاسپورٹ رکھنے والے افغان پناہ گزین کو افغان پاسپورٹ کے ساتھ تبدیل کیا گیاہے۔ وہ افغان پناہ گزین جو عرب ممالک میں کاروبار اور کام کے غرض سے گئے ہیں ان کے حقوق کے لئے بھی افغان وزارت متعلقہ ممالک کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے۔

ماہر معاشیات ولی خلجی نے بتایا کہ افغان حکومت پاکستان میں مقیم اپنے تاجران کو افغان پاسپورٹ دینے کیلئے تگ و دو کر رہے ہیں۔ افغان تاجران کی پاکستان میں ایک اہم تجارتی شراکت داری ہے۔  اگر افغان پناہ گزین تاجران نے اپنے سرمائے کو پاکستان سے  افغانستان کو منتقل کیا تو افغانستان معیشت کو کافی تقویت ملے گی جبکہ پاکستانی معیشت ایک محتاط اندازے کے مطابق اربوں روپے کو نقصان ہوگا۔  پناہ گزین کی حیثیت سے ان تاجران  کی پاکستان میں سرمایہ کا درست اندازہ لگانا  مشکل ہے۔ 

لیکن جب کبھی  حکومت نے افغان پناہ گزین کے انخلا کی بات کی ہے تو کوئٹہ میں زمین، جائداد کی قیمتوں میں کافی کمی واقع ہوتی ہے اور کاروبار خرید و فروخت میں مندی رہی ہے۔ اگر افغان پناہ گزین اپنا سرمایہ دیگر ممالک منتقل کر لیتے ہیں تو اس سے کوئٹہ پشاور اور کراچی کے کاروبار پر منفی اثر پڑے گا۔

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کرونا کے باعث مہاجرین اور علاقہ بدر لوگوں کے انٹرنیشنل ویبینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے'' کہ پاکستان نے چار دہائیوں سے میلینز کی تعداد میں افغان مہاجرین کو پناہ دیتے ہوئے انہیں تعلیم، صحت، زندگی گزارنے کی ضروریات، فنی تربیت اور معاشرے میں آزادی سے رہنے کی سہولیات فراہم کی ہیں، جو پاکستان کی سخاوت اور مہمانوازی کا واضح ثبوت ہے۔

  شاہ محمود قریشی نے اس بات پہ زور دیا کہ جہاں کہیں بھی پناہ گزین بستے ہیں اقوام متحدہ کا ادارہ برائے پناہ گزین کو چاہئے کہ وہ مہاجرین کو پناہ دینے والے ممالک کی امداد کرے تاکہ کرونا وائرس کا مقابلہ کیا جا سکے اور انکی دیکھ بھال،انفراسٹرکچر اور ادویات کی فراہمی ممکن ہو سکے، مہاجرین کے اپنے ممالک میں جنگ بندی کرکے امن قائم کیا جائے تاکہ انکی قابل عزت واپسی کو ممکن بنایا جاسکے۔