Get Alerts

برصغیر میں اُردو ترجمہ کا فن اور شاندار روایت

برصغیر میں اُردو ترجمہ کا فن اور شاندار روایت
اگرچہ اُردو زبان برصغیر میں بولی جانے والی دیگر زبانوں کے مقابلے میں تاریخی طور پر اتنی پرانی نہیں ہے مگر اس زبان میں ادب اس قدر توانا لکھا گیا جو برصغیر تو کیا دنیا کی کسی زبان کے سامنے رکھا جا سکتا ہے، یہی بات اردو تراجم کے حوالے سے کی جاسکتی ہے۔

برصغیر میں اردو ترجمہ کی روایت کا آغاز مغلیہ سلطنت کے عہد میں شروع ہوا، مغل شہنشاہوں کو عوام سے رابطے اور کاروباری معاملات چلانے کے ایک ایسی زبان کی ضرورت تھی جو عوامی ہو۔ مغل دور میں فارسی سنسکرت زبان کی نایاب کتب کا اردو میں ترجمہ کیا گیا۔

ترجمہ ایک فن ہے، ہنر ہے۔ اس فن میں ایک زبان کے متن کو دوسری زبان میں منتقل کیا جاتا ہے، ترجمہ نگار کو دو زبانوں کا علم ہونا چاہیے۔ تین قسم کے تراجم ہوتے ہیں، علمی ترجمہ جس سائنس اور دوسرے علوم کے نصابی تراجم کیے جاتے ہیں دوسرا ادبی ترجمہ جس میں فکشن شاعری آپ بیتی کا کام کیا جاتا ہے اور تیسرا صحافتی ترجمہ جو اخبارات ورسائل میں خبریں اور مضامین کالم کا ترجمہ ہوتا ہے۔

اردو ترجمہ میں فورٹ ولیم کالج کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ بابائے اردو مولوی عبدل حق کہتے ہیں کہ اردو شاعری میں جو مقام ولی دکنی کو حاصل ہے وہ اردو ترجمہ میں ڈاکٹر گلکرسٹ کو حاصل ہے۔ ڈاکٹر گلکرسٹ فورٹ ولیم کالج کے پہلے صدرِ شعبہ اردو ترجمہ تھے۔

اردو ترجمہ میں بہت بڑے نام سعادت حسن منٹو ، انتظار حسین ،حمید اختر ،سلیم الرحمٰن، خالد فتح محمد اور مسعود اشعر کے نام آتے ہیں ،ظفر اللہ بھی اس سنہری روایت کے ایک مسافر ہیں جو اب تک فلسفہ ،اپ بیتی ،اور فکشن کی کتابوں کے تراجم کر چکے ہیں۔ فلسفے میں تصوراتی دنیا ،آپ بیتی میں سٹار کرکٹر شاہد آفریدی کی کتاب گیم چینجر اور فکشن ترکی کے نامور فکشن لکھنے والوں اسکندر پالا، شبنم اشیی گوزیل ،اور احمت امیت کے ناول شامل ہیں جن کو جمہوری پبلیشر نے شائع کیا ہے۔

ظفر اللہ ایک بلاگر تھے ان کے لکھے بلاگز کا سیاسی شعور بہت بلند ہوتا تھا مگر وہ سب کچھ سوشل میڈیا کے جنگل میں گم ہو جاتا تھا مگر جب انہوں ترجمہ کے دہشت میں قدم رکھا ہے وہ سنجیدہ علمی ادبی و سیاسی حلقوں میں ایک معروف نام بن گئے ظفر اللہ نے ایک ہی جست میں فلسفے آپ بیتی اور فکشن کو جس مہارت سے اُردو قالب میں ڈھالا ہے وہ قابل تعریف ہے امید ہے وہ مزید معیاری کام کرتے رہیں گے۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔