آبپارے کے ٹاؤٹ، دس سالہ منصوبہ، قاضی فائز عیسیٰ ریفرنس اور فروغ نسیم کا منہ توڑ جواب

آبپارے کے ٹاؤٹ، دس سالہ منصوبہ، قاضی فائز عیسیٰ ریفرنس اور فروغ نسیم کا منہ توڑ جواب
فروغ نسیم بار بار کہتے ہیں کہ یہ بات اب ختم ہو چکی ہے، میں اس پر بات نہیں کرنا چاہتا۔ شاہزیب خانزادہ بار بار لیکن اپنے سوال کو نئے انداز سے پیش کر رہے ہیں اور جواب چاہتے ہیں۔ وہ پوچھ رہے ہیں کہ کیا آپ ہی تھے جو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کیس بنانے پر بضد تھے؟ فروغ نسیم کہتے ہیں کہ مجھے کیا تکلیف تھی؟ شاہزیب پھر پوچھتے ہیں کہ عمران خان تو کہتے ہیں کہ ان سے کروایا گیا یہ کام۔ اشارے آپ کی طرف ہو رہے ہیں۔ فروغ نسیم کہتے ہیں مجھے تو صبح سات بجے فون کر کے خان صاحب نے بلایا کہ ایسٹ ریکوری یونٹ میں قاضی فائز عیسیٰ کی کوئی پراپرٹی نکل آئی ہے، ہمارا ایجنڈا ہے کرپشن کا مکمل خاتمہ، لہٰذا قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس تیار کریں۔ شاہزیب خانزادہ پھر پوچھتے ہیں کہ فواد چودھری نے تو آپ کا نام لیا ہے۔ فروغ نسیم کہتے ہیں بالکل لغو بات ہے، میرے اوپر وزیر اعظم عمران خان تھے، ریفرنس ان کا بھیجا ہوا صدر کے پاس گیا، صدر عارف علوی نے بھی اسے آگے بھیج دیا، یہ سب بھی کیا میری ذمہ دار تھی؟ شاہزیب خانزادہ کے وار لیکن ختم نہ ہونے میں آئے تو تنگ آ کر فروغ نسیم کہہ اٹھے کہ میں قاضی فائز عیسیٰ کیس پر مزید بات نہیں کرنا چاہتا۔ وہ کیس ختم ہو چکا ہے۔ بات نکلے گی تو دور تلک جائے گی۔

17 مئی 2021 کو نیا دور پر سابق سربراہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو ڈاکٹر اشفاق احمد کی بطور ڈی جی انٹرنیشنل ٹیکسز خراب کارکردگی پر رپورٹ میں بتایا تھا کہ کرپشن کے نام پر بنائی شہزاد اکبر کی اس کرپشن کی فیکٹری نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف تمام تر مواد غیر قانونی طور پر حاصل کیا جو کہ سپریم کورٹ کے ایک جج کی جاسوسی کے زمرے میں آتا ہے اور ان پر بنایا گیا کیس مکمل طور پر بے بنیاد تھا جس میں ان کی اہلیہ کی لندن میں موجود پراپرٹی کو بنا ثبوت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے جوڑا گیا تھا اور سپریم جوڈیشل کونسل کو اس مفروضے کی بنیاد پر ایک ریفرنس بھیج دیا گیا تھا کہ یہ جائیداد دراصل مسز سرینا عیسیٰ کے نام پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بےنامی جائیداد ہو سکتی ہے۔ مسز سرینا عیسیٰ کی جائیداد کی تفصیلات حاصل کرنے میں مدد کس نے کی، اس سوال پر ایک سابق ایف بی آر سربراہ نے بتایا تھا اور 17 مئی 2021 کو شائع ہونے والی خبر میں یہ بات واضح طور پر لکھی گئی تھی کہ ایف بی آر کے دفتر میں ایک کمرہ ہے جس میں ایک سپر کمپیوٹر موجود ہے، اس سپر کمپیوٹر میں انٹرنیشنل ٹیکسز کی تمام تفصیلات موجود ہیں۔ اس کمرے تک صرف دو افراد کو رسائی حاصل تھی، ایک خود ایف بی آر سربراہ اور دوسرے صاحب تھے اس وقت کے ڈی جی انٹرنیشنل ٹیکسز ڈاکٹر اشفاق احمد جو بعد میں ایف بی آر سربراہ بھی بنا دیے گئے۔ کیوں؟ اس کا جواب تو شاید سابق وزیر اعظم عمران خان ہی دے سکیں لیکن سابق سربراہ ایف بی آر نے نیا دور سے نام صیغہ راز میں رکھے جانے کی شرط پر بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ وہ کمرہ جس میں یہ تمام تفصیلات موجود تھیں، اس کمپیوٹر سے انہوں نے کوئی تفصیلات ARU کو نہیں دیں۔ دوسرے شخص ڈاکٹر اشفاق احمد ہی بچتے تھے۔

اس طرف اشارہ مسز سرینا عیسیٰ نے 21 جولائی 2021 کو ایف بی آر کے ایک کمشنر ڈاکٹر ذوالفقار احمد کو لکھے گئے اپنے خط میں کیا تھا کہ یہ تفصیلات حاصل کرنے کے لئے ایسٹ ریکوری یونٹ کے پاس کوئی اختیار نہیں تھا کیونکہ یہ confidential معلومات تھیں اور انہوں نے انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن 198 اور 216 کی کھلی خلاف ورزی کی تھی۔ انہوں نے مزید لکھا تھا کہ اس یونٹ نے ایف بی آر کے افسر اشفاق احمد کو مئی 2019 میں خط لکھا اور انہوں نے تکمیل میں انتہائی پھرتی دکھائی۔ مسز سرینا عیسیٰ کی اس دلیل کو تقویت اس ریفرنس کے فیصلے میں اپنے اختلافی نوٹ سے جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی بخشی جنہوں نے لکھا تھا کہ ایسٹ ریکوری یونٹ کی جانب سے یہ تفصیلات مانگنا اور ان کو یہ تفصیلات دیے جانا، دونوں ہی قانون کی خلاف ورزی تھی۔ تاہم، اس واقعے کی کوئی انکوائری تو کیا ہونی تھی، الٹا یہ تفصیلات فراہم کرنے والے جونیئر افسر جن کی بطور ڈی جی انٹرنیشنل ٹیکسز کارکردگی صفر تھی، ایف بی آر کے سربراہ بنا دیے گئے۔

کیس کے اندر کیا حقائق سامنے آئے، اس کی تفصیلات میں جائے بغیر یہ یاد دہانی ضروری ہے کہ سابق سربراہ ایف آئی اے بشیر میمن سینیئر صحافی مطیع اللہ جان کو دیے اپنے ایک انٹرویو میں واضح کر چکے ہیں کہ ان کو خود عمران خان نے بلا کر کہا کہ آپ نے گھبرانا نہیں ہے، کرپشن روکنا ہمارا کام ہے اور ہمیں بڑے سے بڑے آدمی کے خلاف بھی کیس بنانا پڑا تو ہم بنائیں گے۔ اس کے بعد انہیں شہزاد اکبر، فروغ نسیم اور ڈاکٹر اشفاق احمد نے قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ بطور ایف آئی اے سربراہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف تحقیقات کا آغاز کریں۔

اب یہ تمام کردار معاملے کو ایک دوسرے پر ڈالنے کی کوشش میں مگن ہیں۔ شہزاد اکبر ملک سے فرار ہو چکے ہیں۔ عمران خان کہہ رہے ہیں میرے سے تو غلطی ہو گئی۔ فواد چودھری اس غلطی کا ذمہ دار فروغ نسیم کو قرار دیتے ہیں۔ فروغ نسیم کہتے ہیں تحقیقات شہزاد اکبر کے ادارے نے کیں، ریفرنس بنانے کے لئے عمران خان نے کہا اور سپریم جوڈیشل کونسل کو صدر عارف علوی نے بھیجا۔

سچ کوئی بھی نہیں بول رہا۔ سچ تو شاید سپریم کورٹ نے بھی نہیں بولا۔ بار بار یاد کروایا جاتا رہا کہ قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباد دھرنا کیس میں ایک عدد فیصلہ دیا تھا اور یہ ریفرنس اس کی سزا ہے۔ عدالت نے کہا کہ نہیں یہاں کوئی سازش نہیں۔ ایک ملا نے قاضی فائز عیسیٰ کے قتل کا فرمان اپنے یوٹیوب چینل پر جاری کر دیا، اس کو مکمل پروٹوکول کے ساتھ سپریم کورٹ لایا گیا اور وہاں سے محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا۔ اس واقعے کی ایف آئی آر درج کرنے میں ایف آئی اے کو کئی دن لگ گئے۔ اب فروغ نسیم صاحب کہتے ہیں مجھے اس موضوع پر بات نہیں کرنی، بات نکلے گی تو دور تلک جائے گی۔ حالانکہ اتنی بھی دور نہیں جاتی۔

شاہزیب خانزادہ کے ساتھ اپنے اسی انٹرویو میں فروغ نسیم پر لگایا شیریں مزاری کا جب یہ الزام دہرایا گیا کہ وہ آبپارہ جاتے تھے تو فروغ نسیم نے جواب دیا کہ شیریں مزاری خود بھی آبپارہ بہت جاتی تھیں اور آبپارہ تو سبھی جاتے تھے۔ آبپارہ تو خود عمران خان صاحب بھی بہت جاتے تھے۔ یہ الفاظ کسی اور کے نہیں، عمران خان کے اپنے وزیرِ قانون کے ہیں جو ایم کیو ایم کی مرضی کے خلاف ان کے قوٹے پر پونے چار سال عمران خان کے وزیر قانون رہے اور دو مرتبہ یہ وزارت چھوڑی تو بھی محض ایک جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا کیس لڑنے کے لئے اور ایک بار قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دلائل دینے کے لئے جب عدالت میں حکومت کے وکیل بنے۔ فواد چودھری کی اپنی تاریخ سے کون واقف نہیں کہ وہ پرویز مشرف تک کیسے پہنچے اور پرویز مشرف سے یہاں تک کیسے پہنچے۔ شیریں مزاری کا اپنا اسٹیبلشمنٹ نواز ماضی کس سے ڈھکا چھپا ہے؟ باقی سب چھوڑیے، عمران خان خود کیسے اقتدار میں آئے تھے؟

یہ لوگ آج بھی سچ بولنے کو تیار نہیں۔ عمران خان کو قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس بنانے کو کہا گیا، انہوں نے شہزاد اکبر کو کوئی گند ڈھونڈنے کے احکامات جاری کیے۔ فروغ نسیم نے اپنی جاب ڈسکرپشن پوری کی۔ غیر قانونی کام جس افسر سے کروایا گیا، اسے انعام میں ادارے کا سربراہ لگا دیا گیا۔ دس سالہ منصوبہ تھا۔ قاضی فائز عیسیٰ سے پہلے کا کام سارا مکمل تھا۔ بعد کا بھی تقریباً طے تھا۔ وہ بیچ میں رکاوٹ بن سکتے تھے، سو نکالنے کا پروگرام بنایا گیا۔ کسی کو آرمی چیف بننا تھا، کوئی دس سال تک وزیر اعظم رہنا چاہتا تھا، مخالفین سے جیلیں بھرنا تھیں، اسی لئے آبپارے والے کی تبدیلی پر تڑپتا تھا۔ آبپارہ والا تبدیل کیا ہوا، دنیا ہی بدل گئی۔ آج ایک دوسرے پر آبپارے کا ٹاؤٹ ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔ باقیوں کو تو چھوڑیں، شیخ رشید بھی۔ جی ہاں، شیخ رشید نے بیان دیا ہے کہ شہباز شریف اسٹیبشلمنٹ والوں سے ملاقاتیں کرتا تھا۔ یہ پتہ کیسے چلا؟ کہ جب میں وہاں جاتا تھا تو وہ پہلے سے بیٹھا ہوتا تھا۔ اب اس سے زیادہ شرمناک بیان کیا ہوگا؟ مگر شیخ رشید اور شرم؟

تکلیف بس اس بات کی ہے کہ اب آبپارہ والا گھاس نہیں ڈال رہا۔ ورنہ فروغ نسیم کے الفاظ میں جاتے تو سب ہی تھے۔

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.