کراچی کا نیا میئر آخر کار تقریباً تین سال کے وقفے کے بعد منتخب ہو ہی گیا۔ پر کیا کبھی آپ نے سنا ہے کہ ملک میں وزیر اعظم کی مدت پوری ہونے کے بعد جنرل الیکشن جس کے ذریعے مرکزی و صوبائی حکومت وجود میں آتی ہیں، بارش یا کسی پٹیشن کے دائر ہونے کی وجہ سے ملتوی کیے جاتے رہیں کہ تین سال گزر جائیں؟
یقیناً جواب نفی میں ہوگا۔ اس کی وجہ ہے۔ آئین پاکستان نے الیکشن کمیشن کو پابند بنایا ہے کہ وه مرکزی و صوبائی حکومتیں ختم ہونے کے بعد نوے دن کے اندر ملک میں انتخابات منعقد کروا دیں۔ لیکن مملکت پاکستان کا تیسرا اہم ترین آئینی طور پر بیان کرده ستون (پہلے دو ستون مرکزی و صوبائی حکومتیں ہیں) یعنی کہ بلدیاتی حکومت کے انتخابات کو غیر ضروری طول دے دیا جاتا ہے۔ کیونکہ بدقسمتی سے اسی آئین نے بلدیاتی انتخابات کے لئے کسی مدت کا تعین نہیں کیا ہے۔ حالانکہ یہ وه اہم ترین ستون ہے جس کے ذریعے مرکزی و صوبائی حکومتوں کی جانب سے جاری کرده وسائل شہر کے منتخب ناظم سے ہوتے ہوئے نچلی ترین سطح یعنی کسی بھی علاقے کے یو سی چیئرمین اور کونسلر تک آتے ہیں اور شہری علاقوں میں ترقیاتی کام صرف اسی ذریعے سے پایہ تکمیل تک پہنچ پاتا ہے کیوں کہ مرکزی و صوبائی حکومتوں کے اراکین کا کام تو پارلیمنٹ میں بیٹھ کر قانون سازی کرنا ہوتا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ مملکت پاکستان میں اختیارات و وسائل کو نچلی سطح تک پہنچانے پر کوئی راضی نہیں ہے۔ اسی لئے جہاں آئین پاکستان میں صدر پاکستان سے لے کر گورنرتک، مجلس شوریٰ سے لے کر وزیر اعظم اور ان کی کابینہ تک اور صوبائی حکومتوں سے لے کر وزیر اعلیٰ بمعہ کابینہ کے اختیارات کو الگ الگ باب کی صورت میں بیان کیا گیا ہے، وہیں اسی آئین میں پورے ملک کے شہروں میں بننے والی مقامی یا بلدیاتی حکومتوں و ناظم اور اس کی کابینہ کو ملنے والے اختیارات کا ذکر تک نہیں ہے۔ بلکہ دو لائن کے آرٹیکل 140 A میں صرف یہ کہہ کر معاملہ رفعہ دفعہ کیا گیا کہ تمام صوبائی حکومتوں پر یہ لازم ہے کہ وه مقامی حکومتوں کو قائم کریں اور سیاسی، انتظامی اور مالی اختیارات نچلی سطح تک منتقل کریں اور الیکشن کمیشن انتخابات کروا دے۔
نہ 90 دن جیسی کسی الیکشن کی مدت کا تعین، نہ ہی جیسے مرکز کو صوبوں کے لئے نیشنل فنائنس کمیشن (NFC) کے نفاذ کے لئے پابند کیا گیا ہے ویسے صوبوں کو بلدیاتی حکومتوں کے لئے پروونشل فناننس کمیشن (PFC) کے نفاذ کے لئے پابند کیا گیا اور نہ ہی بلدیاتی / مقامی حکومتوں کے ماتحت آنے والے کسی بھی محکمے کا نام بیان کیا۔
اوپر بیان کرده آئین کے اس موجوده جھول سے وہاں فرق نہیں پڑتا جہاں پاکستان کے دوسرے صوبوں میں جو سیاسی جماعتیں صوبائی حکومتیں قائم کرتی ہوں وہی بلدیاتی حکومتیں بھی بنا لیں کیونکہ اکثر اوقات جس سیاسی جماعت کو لوگ صوبے میں حکومت بنانے کے لئے منتخب کرتے ہیں اگر وه ذرا سی بھی کاگردگی دکھا دے تو اسی جماعت کو علاقے میں ترقیاتی کام کرنے کے لئے بھی عوام چن لیتی ہے اور یوں صوبائی حکوت بغیر نیت میں فتور لائے تمام مالی و انتظامی اختیارات خوش اسلوبی سے اپنی ہی سیاسی جماعت کی مقامی حکومتوں تک منتقل کر دیتی ہے۔
مسئلہ وہاں کھڑا ہوتا ہے جہاں شہروں میں مقامی حکومت اسی صوبے کی پارلیمنٹ میں بیٹھی حریف جماعت بنا لیتی ہے۔ اور سیاسی جماعتوں میں اپنے حریف کو ناکام دکھانے کی جو ایک فطری خواہش ہوتی ہے وه اسی پارلیمنٹ میں بیٹھی صوبائی حکومت پر غالب آ جاتی ہے۔
یوں پھرصوبائی حکومت دو سطروں پر مشتمل آئین کے آرٹیکل جس کی نشریح سے زیاده تصحیح کی ضرورت ہے کا فائده اٹھا کر جتنا دل چاہا بس اتنا ہی اختیار مقامی حکومتوں کو دے کر حریف جماعت کے منتخب ناظم اور اس کی کابینہ کو مفلوج کر دیتی ہے۔
اس کی سب سے بڑی مثال تین کروڑ کی آبادی سے تجاوز کر جانے والا کراچی شہر ہے۔ جہاں پر بھٹو کے نام پر ووٹ لینے والی سندھ حکومت 75 سالوں میں پہلی بار اپنا ناظم لانے میں کامیاب ہوئی۔ ورنہ کراچی کے عوام یا تو متحده قومی موومنٹ یا پھر جماعت اسلامی کا ناظم منتخب کرتے آ رہے تھے۔ یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ کراچی شہر میں 80 کی دہائی کے بعد سے ترقیاتی کام صرف پرویز مشرف کے دور میں ہوا۔ پھر جونہی پیپلز پارٹی نے سندھ واپس سنبھالا، کراچی شہر میں آنے والے میئر نے صرف اختیارات نہ ملنے کا ہی گلہ کیا۔ جو زبوں حالی صوبہ سندھ کی نظر آتی ہے وه اس بات کا ثبوت ہے کہ کیوں عقل و شعور رکھنے والے کراچی کے لوگوں سے بھٹو کے نام پر پیپلز پارٹی زیاده ووٹ نہ لے سکی۔
حکومت تو شاید اس جماعت کی کراچی میں اب بھی بلدیاتی انتخابات میں نہ بنتی لیکن شومئی قسمت 9 مئی جیسا تکلیف ده سانحہ ہو گیا اور عوام کو جلاؤ گھیراؤ کے لئے اکسانے پر بہت سے تحریک انصاف کے نو منتخب کونسلر اور یو سی چیئرمین کی گرفتاریاں بھی عمل میں آئیں۔ جس کے باعث کراچی میں ناظم کے چناؤ والے دن کئی کونسلر و یو سی چیئرمین شرکت ہی نہ کر سکے اور یوں پیپلز پارٹی کا منتخب کرده ناظم اکثریت نہ ہوتے ہوئے بھی زیاده ووٹ لینے میں کامیاب ہو گیا۔
اس پر طرہ یہ کہ اپنے ہی صوبے کے سب سے بڑے شہر میں اکثریت سے مینڈیٹ نہ ملنے کے باوجود بھی ناظم منتخب ہونے پر پیپلز پارٹی نے باقاعده کراچی شہر میں جیت کا جشن منایا۔ بہرحال جیت تو پھر جیت ہی ہوتی ہے لیکن اس سے بھی عجب بات یہ ہے کہ کراچی کے عوام کو یہ بھی باور کرایا گیا کہ اب شہر کراچی کو اس کا حق ملے گا اور شہر میں ترقیاتی کام ہوں گے۔ جیسے جانے پچھلی کئی دہائیوں، خاص کر کہ ان پندره سالوں سے پورے صوبہ سندھ، سمیت کراچی شہر کے تمام سیاه و سفید کی مالک اس جماعت کو آخر کون سی طاقت وه ترقیاتی کام کرنے سے روکتی رہی جو اب 30 فیصد کراچی شہر پر عملداری (jurisdiction) رکھنے والا ان کا ناظم کر کے دکھادے گا؟
پیپلز پارٹی سندھ صوبے کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے، فی الوقت کراچی میں اپنا ناظم لانے میں کامیاب ہو چکی ہے جو کہ اپنی ذات میں ایک بہتر اور لائق انسان ہیں اور کراچی میں کچھ عرصے ایڈمنسٹریٹر کی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ لہٰذا اب کوئی غیبی طاقت اس سیاسی جماعت کو کراچی شہر میں ترقیاتی کام کرنے سے نہیں روک سکتی۔ کیا پتہ جلد شہر کراچی، پیرس کا منظر پیش کرنے لگے، جس کا اس مظلوم شہر کے لوگوں کو پورے ملک کا 70 فیصد ریونیو کما کر دینے کے بعد بھی 75 سال سے انتظار ہے۔
سب سے زیاده خوش آئند بات یہ ہے کہ اب سندھ کی صوبائی حکومت اور کراچی کی مقامی حکومت کا تعلق ایک ہی جماعت سے ہو گیا ہے۔ اب اس نئی بلدیاتی حکومت کو وساائل بھی ملیں گے، اور اختیارات بھی۔ کیونکہ بلدیاتی حکومت ایکٹ میں ترامیم لا کر انتظامی اختیارات سونپنا یا واپس لے لینا بھی تو پاکستان کی تمام صوبائی حکومتوں کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ ہاں اس دو سطروں پر مشتمل آرٹیکل میں ترامیم لانے کے لئے مرکز سے "دو تہائی اکثریت" ضرور درکار ہے، جو کہ ہماری مرکز میں بیٹھی "سیاسی اکثریت" لانے کو تیار نہیں۔ ظاہر ہے پھر عوام سے ووٹ مانگنے کے لئے انہیں نئے وعدے جو سوچنے پڑیں گے۔
کاش کہ جس طرح مرکز میں بیٹھی حکومت کسی بھی صوبائی حکومت سے انتظامی اختیارات واپس نہیں لے سکتی اسی طرح صوبائی حکومتیں بھی پابند ہوتیں تو یہ مقامی حکومتیں آج کسی کام کی ہوتیں یا کاش کہ صرف ہماری نیتیں ہی شفاف ہوتیں۔