عمران خان نے بال خود فوج کے کورٹ میں پھینک دی ہے

عمران خان نے بال خود فوج کے کورٹ میں پھینک دی ہے
یہ تو پہلے دن سے واضح تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کورونا وائرس کے معاملے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہے۔ وہ کئی دن تک لاک ڈاؤن کی مخالفت کرتے رہے۔ اور اس دوران انہوں نے ایسے کئی بیانات بھی دیے جو کہ حقیقت سے کوسوں دور تھے۔ مثلاً ایک موقع پر انہوں نے کہا کہ لاک ڈاؤن کی ضرورت نہیں ہے، عوام خود گھروں میں رہیں اور پریشان نہ ہوں، ہو بھی گیا کورونا وائرس تو آپ خود ہی ٹھیک ہو جائیں گے۔ جمعے کی نماز سے متعلق ان کا بیان تھا کہ اجتماعات پر پابندی نہیں لگائی جا رہی لیکن لوگ بس جمعہ جلدی سے پڑھ کر گھر آ جائیں۔ ایک موقع پر وہ انتہائی غیر حساس انداز میں یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ اس کا شکار ہونے والے صرف 2 سے 3 فیصد افراد ہلاک ہوتے ہیں۔ گویا یہ کوئی افراد یا خاندانوں کا حصہ نہیں، صرف ایک ہندسہ ہوں۔

یہ بھی یاد رہے کہ 23 مارچ کو یومِ پاکستان کے موقع پر جس وقت ڈی جی آئی ایس پی آر نے لاک ڈاؤن کے حوالے سے افواجِ پاکستان کی تیاریوں سے متعلق میڈیا کو بتایا، اس سے کچھ ہی دیر قبل مشیرِ اطلاعات فردوس عاشق اعوان یہ کہہ چکی تھیں کہ حکومت لاک ڈاؤن کا ارادہ نہیں رکھتی۔

تاہم، جمعے کو نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق وزیر اعظم عمران خان جب لاک ڈاؤن نہ کرنے پر بضد رہے تو فوج نے خود ہی چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ سے بات کی اور ان سے فوج کی تعیناتی کے احکامات حاصل کر کے پریس کانفرنس کر دی۔ اخبار کا دعویٰ ہے کہ اس سلسلے میں وزیر اعظم عمران خان کی مرضی شامل نہیں تھی لیکن فوج نے ان کو بائی پاس کرتے ہوئے مفادِ عامہ کے پیشِ نظر یہ فیصلہ کیا۔

یاد رہے کہ اس سے پہلے ہی سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ لاک ڈاؤن کا اعلان کر چکے تھے جب کہ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف وزیر اعظم کو ایک خط لکھ چکے تھے جس میں انہوں نے واضح طور پر لاک ڈاؤن کا مطالبہ کیا تھا۔ اس صورت میں اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں یعنی مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کی جانب سے لاک ڈاؤن کی حمایت کی جا چکی تھی۔ لہٰذا جس وقت ڈی جی آئی ایس پی آر نے کور کمانڈرز کانفرنس میں لیے گئے فیصلوں پر میڈیا کو بریفنگ دی، اس وقت تک اس اقدام کو قبولیتِ عام حاصل ہو چکی تھی۔

ان حقائق اور معتبر امریکی اخبار کی رپورٹ کی روشنی میں یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ وزیر اعظم نے اپنی کنفیوژن کے باعث ملک کو ایک بڑے بحران سے دو چار کر دیا ہے۔ اس سے قبل تفتان بارڈر پر قرنطینہ کے نام پر ایک چھوٹی سی جگہ پر ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو جمع کرنے کے بعد ان کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے کی کوتاہی بھی خود وزیر اعظم صاحب اور ان کے مشیر برائے اوورسیز پاکستانیز ذلفی بخاری کی نااہلی اور غیر سنجیدگی کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ وزیر اعظم صاحب خود کہہ چکے ہیں کہ گذشتہ چند روز میں 9 لاکھ پاکستانی ایئر پورٹس کے ذریعے پاکستان واپس آئے ہیں۔ چند ہزار افراد جو تفتان میں رکھے گئے، ان کے علاوہ یہ لاکھوں افراد جو بغیر سکریننگ کے ملک بھر میں اپنے گھروں، رشتہ داروں، دوست احباب اور برادریوں میں یہ کورونا وائرس پھیلاتے رہے، ان کا کوئی حساب ہمارے پاس موجود ہی نہیں۔

اس پر جلتی کا تیل وزیر اعظم صاحب کے وہ بیانات کرتے ہیں جن سے نہ صرف ان کی لاعلمی ظاہر ہوتی ہے بلکہ غیر حساسیت کی بو بھی آتی ہے۔ مثال کے طور پر پارلیمانی پارٹی سربراہان کی کورونا وائرس میٹنگ خود بلا کر اس سے اٹھ کر چلے جانا یا نیب کی جانب سے اس موقع پر شاہد خاقان عباسی کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے جانا غیر سنجیدگی نہیں تو کیا ہے؟

صورتحال اس نہج کو آ پہنچی ہے کہ وہ عوامی حلقے جو فوج کے سیاسی کردار کی مخالفت کرتے آئے ہیں، انہوں نے بھی فوج کے کردار کو سراہا۔ صحافی خرم حسین نے لکھا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر وزیر اعظم کے مقابلے میں زیادہ قومی سطح کے لیڈر کے طور پر ابھرے ہیں۔ جب کہ سرل المائدہ نے لکھا کہ بابر افتخار ایک شریف آدمی اور پیشہ ور فوجی دکھ رہے ہیں۔ مشکل وقت میں بڑا انسان مردِ بحران بن کر ابھرا ہے اور وہ انسان یقیناً عمران خان نہیں ہے۔