سپریم کورٹ کی فوجی عدالتوں کو محفوظ شدہ فیصلے سنانے کی مشروط اجازت

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کیا کہ 20 افراد ایسے ہیں جن کی عید سے قبل رہائی ہو سکتی ہے۔ بریت اور کم سزا والوں کو رعایت دے کر رہا کیا جائے گا۔ مجموعی طور پر 105 ملزمان فوج کی تحویل میں ہیں۔

سپریم کورٹ کی فوجی عدالتوں کو محفوظ شدہ فیصلے سنانے کی مشروط اجازت

سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کیخلاف اپیلوں پر گزشتہ سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا۔ عدالت نے فوجی عدالتوں کو محفوظ شدہ فیصلے سنانے کی مشروط اجازت دے دی۔

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 6 رکنی لاجر بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت کی، جس سلسلے میں اٹارنی جنرل منصور عثمان عدالت میں پیش ہوئے۔

لارجر بینچ میں جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس عرفان سعادت خان بھی شامل تھے۔

سماعت کے آغاز میں اٹارنی جنرل نے خصوصی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کو رہا کیے جانے کا امکان ظاہر کر دیا۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کیا کہ 20 افراد ایسے ہیں جن کی عید سے قبل رہائی ہو سکتی ہے۔ بریت اور کم سزا والوں کو رعایت دے کر رہا کیا جائے گا۔ مجموعی طور پر 105 ملزمان فوج کی تحویل میں ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملزمان کی رہائی کے لیے 3 مراحل سے گزرنا ہوگا۔ پہلا مرحلہ محفوظ شدہ فیصلہ سنایا جانا دوسرا اس کی توثیق ہوگی۔ تیسرا مرحلہ کم سزا والوں کو آرمی چیف کی جانب سے رعایت دینا ہوگا۔

اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں کو محفوظ شدہ فیصلے سنانے کی اجازت دینے کی استدعا کی۔ جس پر جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ اگر اجازت دی بھی تو اپیلوں کے حتمی فیصلے سے مشروط ہوگی۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ جنہیں رہا کرنا ہے ان کے نام بتا دیں۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ جب تک خصوصی عدالتوں سے فیصلے نہیں آجاتے، نام نہیں بتا سکتا، جن کی سزا ایک سال ہے انہیں رعایت دے دی جائے گی۔

کمرہ عدالت میں موجود بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ اٹارنی جنرل کی بات سن کر مایوسی ہوئی ہے۔

بعدازاں سپریم کورٹ آف پاکستان نے فوجی عدالتوں کو محفوظ شدہ فیصلے سنانے کی مشروط اجازت دے دی۔

عدالت عظمیٰ نے کہا کہ صرف ان کیسز کے فیصلے سنائے جائیں، جن میں نامزد افراد عید سے پہلے رہا ہوسکتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے یقین دہانی کرائی کہ کم سزا والوں کو قانونی رعایتیں دی جائیں گی۔ فیصلے سنانے کی اجازت اپیلوں پر حتمی فیصلے سے مشروط ہوگی۔

سپریم کورٹ نے کے پی حکومت کی اپیلیں واپس لینے کی استدعا بھی منظور کر لی۔ کے پی حکومت نے سویلنز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کےخلاف دائر اپیلیں واپس لینے کی استدعا کی تھی۔

عدالت نے 3 سال سے کم سزا پانے والوں کی تفصیلات بھی طلب کر لیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کوشش کریں عید سے تین چار دن پہلے انہیں چھوڑ دیں۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جی ٹھیک ہے ہم کوشش کریں گے۔

سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو عملدرآمد رپورٹ رجسٹرار کو جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ مزید سماعت اپریل کے چوتھے ہفتے میں ہوگی۔

فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ ایسا نہ ہو رہائی کے بعد ایم پی او کے تحت گرفتاری ہوجائے۔

بعدازاں سپریم کورٹ آف پاکستان نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت اپریل کے چوتھے ہفتے تک کے لیے ملتوی کر دی۔

واضح رہے کہ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ نے پیر کو کیس کی سماعت کی تھی۔ دوران سماعت سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل سے فوجی عدالتوں سے رہا ہونے والے اور سزا پانے والے ملزموں کی فہرست سمیت تمام تفصیلات طلب کی تھیں۔