بہت دنوں سے اس موضوع پر بات کرنا چاہ رہا تھا مگر پھر یہ سوچ کر خاموش ہو جاتا تھا کہ یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے۔ جیالوں سے لے کر لیڈرشپ تک سب کے دل دکھے ہوئے ہیں تو بہتر ہے اس موضوع پر لب کشائی نہ ہی کی جائے۔ لیکن آج جب سینیئر ممبر اکرم فاروقی صاحب نے ہمارے ایک ایسے واٹس ایپ گروپ میں اس پر کھل کر بات کی کہ جہاں کچھ خاموش اور نامعلوم افراد بھی موجود ہیں تو فیصلہ کیا کہ اس پر مجھے بھی بنا لگی لپٹی کھل کر اپنی رائے اور مؤقف پیش کرنا چاہیے۔ میں یہاں قابل احترام فاروقی صاحب کا تجزیہ تو پیش نہیں کر سکوں گا کیونکہ کچھ باتیں ایسی ہیں کہ جنہیں اسی فورم تک ہی محدود رہنا چاہیے اور انہیں ناچیز کے نام سے ادا نہیں ہونا چاہیے۔ مگر اپنی رائے اور تجزیہ ضرور پیش کروں گا۔
اس موضوع پر کھل کر بات کرنا میرے واسطے اس لیے بھی بہت اہم ہے کہ میں اپنے بزرگوں کی جماعت کو پنجاب میں اتنا ہی طاقتور دیکھنا چاہتا ہوں کہ جتنی یہ شہید بھٹو کے دور میں تھی۔ واضح رہے ہمارے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کے علاوہ پنجاب میں کوئی دوسری تیسری مقبول سیاسی جماعت قابلِ قبول نہیں۔
جہاں تک چیئرمین صاحب یا صدر محترم جناب آصف علی زرداری صاحب کا تعلق ہے تو اس میں ان دونوں کا کوئی قصور نہیں، انہیں جیسے گائیڈ کیا گیا انہوں نے ویسے کیا اور ان سے جو مانگا گیا، انہوں نے دیا۔
اس دکھانت ہار کا اگر کوئی ذمہ دار ہے تو وہ پیپلز پارٹی میں شامل مال پانی لہوری فلمیں ہیں یا پھر وہ مشیر جنہوں نے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو لاہور سے الیکشن لڑنے کا مشورہ دیا۔
یہ فیصلہ اپنی بنیاد میں ہی غلط تھا۔ اس کے لیے کوئی ہوم ورک کیا گیا اور نا ہی گذشتہ 15 برس میں کوئی بنیاد بنائی گئی۔ مطلب جہاں آپ کے ووٹ بتدریج ہر الیکشن میں کم ہو رہے تھے، جس شہر میں آپ 50، 55 ہزار سے 7، 8 یا 15 سو ووٹوں پر آ چکے تھے وہاں سے آپ پاکستان کی سب سے بڑی قیادت کے ولی عہد کو لانچ کرنے کا سوچ بھی کیسے سکتے تھے؟
کیا پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت اور سیکنڈ ٹیئر لیڈرشپ میں ایک بھی ایسا نہیں تھا جو آپ کو زمینی حقائق بتاتا اور کہتا کہ ابھی یہ مناسب وقت نہیں، اس کے لیے مناسب منصوبہ بندی موجود نہیں اور ہوم ورک نہیں کیا گیا؟ کیا اوپر سے نیچے کوئی یہ سوال رکھنے والا نہیں تھا کہ آپ کس بنیاد پر ہمارے شہزادے کو لاہور سے لانچ کرنے کا پروگرام بنائے بیٹھے ہیں؟ اور جماعت میں شامل پنجاب کے وہ لوگ جن کی عمریں تخت لاہور کا طعنہ دیتے گزری ہیں، وہ بھی کیوں چپ رہے؟
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
کسی ایک کا نہیں، اس نتیجے سے ہر مخلص کارکن کا دل دکھا ہے تو مجھے اوپر سے لے کر نیچے تک تمام قیادت سے یہ حد درجہ اہمیت کا حامل سوال بطور سیاسی کارکن اور طالب علم پوچھنے کا حق دیجیے کہ۔۔۔
'آپ جب یہاں (پنجاب میں) جنوبی پنجاب سرائیکی صوبے کا متنازعہ سوال اُٹھا چکے تھے تو پھر آپ نے اس کے بدلے وسطی اور اپر پنجاب کو کیا بیانیہ دیا؟'
ایک بار پھر واضح کرتا چلوں کہ یہ سوال میں محض ایک عام سیاسی کارکن اور طالب علم کے طور پر آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں، ورنہ اگر آپ اس بارے میں مجھ سے میری ذاتی رائے دریافت کریں گے تو میں پنجاب دھرتی کا بیٹا ہونے کے ناطے پنجاب کی انتظامی، لسانی ہر طرح کی مجوزہ تقسیم کے آئیڈیا سے ہر دو صورت اختلاف کرتا ہوں اور یہ میرا جمہوری حق ہے۔ مشورہ دیا تھا کہ پنجابی زبان کے نفاذ کو انتخابی منشور کا حصہ بنا کر پنجابیوں کے لیے بیانیہ ترتیب دیا جائے مگر کس نے توجہ نہیں دی؟
پارٹی قیادت خود سوچے کہ جب وہ جنوبی پنجاب کے بار بار دورے کر کے کہتی ہے کہ 'ہم سرائیکیوں پر جبر ختم کریں گے، ہم سرائیکی صوبہ بنائیں گے' تو وہ جنوبی پنجاب میں بیٹھے مہاجرین سمیت 3 کروڑ 47 لاکھ لوگوں اور پورے وسطی اور اپر پنجاب کی اکثریت کو یہ نعرہ لگا کر کیا پیغام دیتی ہے؟
بہرحال سوال بہت اہم ہے اور وضاحت کی طوالت کے باعث نہیں چاہتا کہ پڑھنے والوں کی توجہ اس پر نہ رہے۔ ایک طرف آپ نے اعلانیہ سرائیکی قوم پرست لوگوں کو پنجاب کی قیادت دے رکھی ہے اور دوسری طرف پنجاب دھرتی کی اکثریتی اکائی پنجابیوں کو اس کے ہم پلہ کیا دیا؟
شاید ہماری جماعت کے بزرگ تھنکرز یا حقیقی تھنک ٹینکس کے عہدیداران یہ نہیں جانتے کہ جب آج سے ڈیڑھ دو صدیاں پہلے دنیا میں نیشنلسٹ تحریکوں کا عروج تھا اس وقت پنجاب مصنوعی انڈین نیشنلزم کے پیچھے لگا ہوا تھا۔ دنیا نیشنلسٹ تحریکوں کے تجربات کر کے آگے بڑھ گئی مگر پنجاب وہ ایکسپیرئنس نہ کر سکا۔ اور ایسا انسانی سماجی فطرت میں ممکن نہیں ہوتا کہ کوئی محض دوسرے کے تجربے سے سیکھ کر اس کے ساتھ جا ملے۔ یہ تجربے ہر کسی کو ہر صورت خود کر کے دیکھنے ہوتے ہیں، چاہے نتیجے کتنے ہی یکساں کیوں نہ ہوں۔
تو جناب جب آپ نے پنجاب کی تقسیم یا پنجاب میں دوسرے انتظامی یا لسانی صوبے کا نعرہ بلند کیا تھا تو اس سے پنجابی نیشنل ازم کا برآمد ہونا فطری امر تھا۔ آپ اس جمہوری اکثریت کو نظرانداز کر رہے تھے جو خود لگ بھگ دو صدیوں سے شناختی بحران کا شکار ہے۔
خیر مختصر وضاحتوں کے باوجود بات لمبی ہوتی چلی جا رہی ہے تو واپس لاہور کی شکست پر آتے ہیں۔
اگر آپ کو بنا ہوم ورک ہی پنجاب میں پیپلز پارٹی کی واپسی کو ظاہر کرنا تھا تو کہیں بہتر ہوتا کہ آپ یا تو اس کے لیے پنجاب کے کسی دیہی حلقے کا انتخاب کرتے یا پھر راجہ پرویز اشرف، کائرہ، چوہدری منظور، ندیم افضل چن جیسے رہنماؤں کے حلقہ انتخاب سے چیئرمین کو الیکشن لڑوا لیتے۔ لاہوریوں کی نسبت دیہی پنجاب میں وفاداری، الفت، رکھ رکھاؤ، احساس، زبان، سب نسبتاً زیادہ بہتر ہے۔ کسی دیہی حلقے سے شہید رانی کا شہزادہ کھڑا ہوتا تو یہ عام پنجابیوں کے لیے بھی بہت خوشی اور عزت کی بات ہوتی۔ لوگ حقیقتاً شہید کے لعل کے لیے پھولوں کی سیج سجاتے، اسے اپنے ہاتھوں پر اٹھاتے اور جھوٹ بولنے کے بجائے سچ میں ووٹ بھی دیتے۔
جتنا پیسہ ان لاہوریوں نے ضائع کروایا، اتنے میں دیہی پنجاب میں ایم این اے کے 10 الیکشن جیتے جا سکتے تھے۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ اس سے تخت لاہور والا وہ عذر اور وہ طعنہ بھی جیوت رہتا کہ لاہور سارا بجٹ کھا جاتا ہے۔ علیحدہ صوبے کی مانگ محرومیوں کی وجہ سے ہے۔ جنوبی پنجاب کے عوام حقوق سے محروم ہیں۔ صرف لاہور ہی سب کچھ نہیں، صرف لاہور ہی پنجاب نہیں۔ اہل دانش نے لاہور سے الیکشن لڑوا کر وہ عذر بھی ختم کروا دیا۔
مگر کیا کریں، زمینی حقائق سے دور اس افسانوی ڈرائینگ رومی شہری دانش کا جو پاکستان کی سب سے بڑی جماعت کے لیے دیمک بنتی جا رہی ہے اور فریش آئیڈیاز والے ذہنوں کو بھی قبول نہیں فرماتی۔