بریگزٹ معاہدے میں ناکامی پر برطانیہ کی وزیراعظم تھریسامے نے وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا ہے جس کے بعد وزارت عظمیٰ کی دوڑ میں دن بدن امیدواروں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور اب اس فہرست میں نیا نام پاکستانی نژاد برطانوی سیاست دان ساجد جاوید کا بھی شامل ہو گیا ہے۔
تھریسامے بریگزٹ معاہدے میں اپنی پے درپے ناکامیوں سے دلبرداشتہ ہوکر بالآخر وزارت عظمیٰ اور حکمران جماعت کنزرویٹو اور یونینسٹ پارٹی کی سربراہ کے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کر چکی ہیں۔
ان کے مستعفی ہونے کے اعلان کے ساتھ ہی آٹھ امیدواروں نے کنزرویٹو پارٹی کے نئے سربراہ کے طور پر اپنی خدمات پیش کی ہیں، تاہم اب وزیر داخلہ ساجد جاوید بھی وزارت عظمیٰ کی دوڑ میں شامل ہو گئے ہیں۔
یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ کنزرویٹو پارٹی کا نیا سربراہ ہی برطانیہ کا وزیراعظم ہو گا۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق، ٹویٹر پر اعلان کرتے ہوئے ساجد جاوید نے کہا، بریگزٹ معاہدے کا پورا ہونا سب سے پہلے اور سب سے اہم ہے۔
انہوں نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا، وہ دوبارہ بھروسہ اور اتحاد قائم کرنا چاہتے ہیں تاکہ ملکی ترقی کے لیے نئے مواقع پیدا ہو سکیں۔
انہوں نے کہا، یورپی انتخابات کے نتائج میں یہ دیکھا گیا کہ ان کی جماعت کو 10 فی صد سے بھی کم ووٹ ملے جو 2014 میں 25 فی صد تھے۔ اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ حکومت کا بریگزٹ پر عمل کرنا نہایت ضروری ہے تاکہ جمہوریت پر دوبارہ یقین بحال ہو سکے۔
انہوں نے کہا، ہمیں اختلافات دور کرتے ہوئے تمام برادریوں کے زخموں پر مرہم رکھنا ہوگا۔ معاشرے اور معیشت کو مضبوط بنانا ہو گا تا کہ ملک کے بہتر ہونے سے حاصل ہونے والے مواقع سے سب فائدہ اٹھا سکیں۔
کنزرویٹو پارٹی کی سربراہی کی دوڑ میں اب تک وزیر خارجہ جیریمی ہنٹ، وزیر برائے بین الاقوامی ترقی روری سٹیورٹ، سابق وزیر خارجہ بورس جونس، سابق وزیر برائے ورک اینڈ پنشن ایستھرک مک وے، سابق وزیر برائے بریگزٹ ڈومینک راب، سابق لیڈر آف دی ہائوس اینڈریا لیڈسم، سابق وزیر ماحولیات مائیکل گوو اور سابق وزیر صحت میٹ ہین کوک شامل ہیں۔
یاد رہے کہ چند روز قبل ہی برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے ایک انتہائی جذباتی تقریر کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ وہ سات جون کو وزیراعظم اور حکمران جماعت کنزرویٹو اور یونینسٹ پارٹی کے سربراہ کے عہدوں سے مستعفی ہو جائیں گی۔
ملک کے اگلے وزیراعظم کے لیے یورپی یونین سے سخت شرائط پر علیحدگی کا معاہدہ کرنا آسان ٹاسک نہیں ہو گا جب کہ یورپی یونین کی جانب سے یہ کہا جا چکا ہے کہ وہ گزشتہ برس نومبر میں کیے جانے والے معاہدے پر دوبارہ مذاکرات نہیں کرے گی۔
برطانوی وزیراعظم تھریسامے کے لیے بریگزٹ معاہدہ ایک ایسی مشکل بن گیا تھا جسے وہ گزشتہ تین برس سے حل کرنے کی کوشش کر رہی تھیں تاہم، ارکان پارلیمان کو یورپی یونین سے اخراج کے معاہدے پر منانے کی ان کی ہر ممکن کوشش ناکام رہی ہے جسے ان کی ایک بڑی سیاسی ناکامیابی تصور کیا جا رہا ہے اور وہ اسی بنا پر اپنے عہدے سے مستعفی ہو رہی ہیں۔
برطانوی میڈیا کے مطابق، تھریسامے 10 جون کو وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہو جائیں گی۔