Get Alerts

وزیراعظم کی امریکہ اور یورپی یونین پر تنقید، کیا خارجہ محاذ پر مشکلات بڑھ سکتی ہیں؟

وزیراعظم کی امریکہ اور یورپی یونین پر تنقید، کیا خارجہ محاذ پر مشکلات بڑھ سکتی ہیں؟
وزیر اعظم عمران خان نے میلسی میں ایک سیاسی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے امریکہ اور یورپی یونین سمیت عالمی فورمز پر سخت تنقید کی۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان نے دہشتگردی کیخلاف جنگ میں نیٹو کا ساتھ دیا۔ میں اقتدار میں ہوتا تو کبھی ساتھ نہ دیتا۔ اس جنگ سے پاکستان کو 80 ہزار جانوں، 100 ارب ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان ہوا، قبائلی علاقہ اجڑ گیا، یورپی یونین بتائے کہ کیا اس نے ہمارا شکریہ ادا کیا؟

وزیراعظم نے کہا تھا ہم نے پاکستان کو کبھی کسی کی غلامی نہیں کرنے دینی۔ عمران خان آج تک نہ کسی کے سامنے جھکا ہے اور نہ جھکے گا۔ جب تک خون کا آخری قطرہ باقی ہے، قوم کو جھکنے نہیں دوں گا۔ وزیراعظم عمران خان نے مزید کہا کہ یورپی یونین کے سفیر نے پاکستان کو روس کیخلاف ووٹ دینے کا خط لکھا۔ اس سے میرا سوال ہے کہ جب بھارت نے سلامتی کونسل کی قراردادوں کیخلاف کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی تو کیا یورپی یونین نے ہندوستان سے تجارت ختم کی، تعلقات منقطع کئے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے دہشتگردی کیخلاف جنگ میں نیٹو کا ساتھ دیا۔ ہمارا قبائلی علاقہ اجڑ گیا۔ 35 لاکھ افراد نے نقل مکانی کی۔ یورپی یونین بتائے کہ کیا اس نے ہمارا شکریہ ادا کیا۔ الٹا افغانستان میں جنگ میں ناکامی کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم کسی سے دشمنی نہیں، سب سے دوستی چاہتے ہیں۔ روس، امریکہ، چین اور یورپ سب سے دوستی ہے۔ ہم غیر جانبدار ہیں، ہم کسی کیمپ میں نہیں۔

بین الاقوامی امور کی ماہر پروفیسر ڈاکٹر ہما بقائی کہتی ہیں کہ یورپی یونین نے پاکستان کے حوالے سے جو رویہ اپنایا تھا وہ غیر سفارتی تھا لیکن اس پر دفتر خارجہ کا ایک موقف سامنے آ چکا تھا لیکن وزیراعظم عمران خان کی جانب سے سیاسی جلسے میں سیاسی پوائنٹ سکورنگ اور لوگوں کے جذبات ابھارنے کے لئے اس کے حوالے دئیے گئے اس کی ضرورت نہیں تھی۔

ڈاکٹر ہما بقائی نے مزید کہا کہ سفارت کار تعلقات کو ایک خاص حد تک رکھتے ہیں اور ان کو مزید خراب ہونے سے روکتے ہیں لیکن سفارت کاری کو سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لئے سیاسی جلسوں میں لانا غیر روایتی اور غیر سفارتی رویہ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعظم کی جانب سے یورپی یونین پر سیاسی جلسوں میں تنقید غیر سفارتی ہے کیونکہ یورپی یونین کے ساتھ ہمارے مختلف پوائنٹس پر معاملات انتہائی حساس ہیں۔ دفتر خارجہ نے یورپی یونین کے حوالے سے ایک ذمہ دار فورم پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تو پھر میں نہیں سمجھتی کہ سیاسی جلسوں میں اس پر بات کرنی چاہیے تھی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان ایک غیر روایتی سیاست دان ہیں لیکن ایسے بیانات سے نقصان اگر نہیں ہوگا تو فائدہ بھی نہیں ہوگا۔

خارجہ امور کے ماہرین اور سیاسی مبصرین وزیراعظم کی اس تقریر کو غیر ضروری سمجھتے ہیں اور موقف اپناتے ہیں کہ یہ تقریر خارجہ محاذ پر پاکستان کے لئے مشکلات کھڑی کر سکتی ہے کیونکہ خارجہ محاذ پر شکایات کو سفارت کاری کے ذریعے دوسرے ممالک اور فورمز تک پہنچایا جاتا ہے۔

کچھ سیاسی مبصرین کی رائے ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد وزیراعظم عمران خان ہی ہیں جنہوں نے امریکہ جیسی طاقتوں اور بین القوامی فورمز کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔

وفاقی وزیر اسد عمر نے کل ایک ٹی وی پروگرام میں وزیراعظم کے اس تقریر پر ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو تو قذافی سٹیڈیم میں کھڑے ہو کر خارجہ پالیسی کے فیصلے کرتے تھے۔

نامور صحافی اور تجزیہ کار فہد حسین نے وزیراعظم کی تقریر پر رد عمل دیتے ہوئے ایک ٹی وی پروگرام میں واضح کیا کہ عمران خان نہ تو کنٹینر پر کھڑے ہیں اور نہ حزب اختلاف کا کوئی لیڈر ہے بلکہ وہ بائیس کروڑ عوام اور ایک ایٹمی پاور کے حامل ملک کا وزیراعظم ہے اور ان کی تقریر کے ایک ایک لفظ کا پالیسی سمجھا جاتا ہے۔

فہد حسین نے مزید کہا کہ وزیراعظم نے تقریر ایک ایسے وقت میں کی جب عالمی سطح پر ہمارے لئے بحران ہے اور ہم عالمی سیاست کے گھیرے میں ہیں لیکن یہ تقریر ملک کے لئے اچھی نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پتا نہیں وزیراعظم عمران خان نے وزیر خارجہ اور سلامتی امور کے مشیر سے یہ تقریر کرنے سے پہلے پوچھا تھا کہ میں میلسی میں جا کر یہ تقریر کر رہا ہوں اور کیا اس تقریر سے ملک کے لئے عالمی سطح پر مسائل جنم لینگے لیکن کسی بھی صورت میں اس فورم پر یہ تقریر ذمہ دارانہ نہیں تھی کیونکہ اس تقریر سے ملک کو عالمی محاز پر مسائل کا سامنا ہوگا۔

خارجہ امور پر رپورٹنگ کرنے والے صحافی اور تجزیہ کار کامران یوسف نے ٹوئٹر پر جاری کئے گئے اپنے نقطہ نظر میں کہا کہ کچھ عرصہ پہلے وزیراعظم عمران خان نے قومی سلامتی پالیسی کی منظوری دی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ خارجہ پالیسی کو جذبات سے نہیں بلکہ تحمل اورسمجھ بوجھ کے ساتھ اگے لے کر چلنا ہے لیکن وزیراعظم عمران خان کی تقریر سے لگ رہا ہے کہ وہ پالیسی صرف کتابوں کی حد تک تھی۔

یورپی یونین پر وزیراعظم کی جانب سے تنقید پر ردعمل دیتے ہوئے کامران یوسف نے مزید کہا کہ امریکہ پر تنقید کی کوئی لاجک بنتی ہے لیکن یورپی یونین پر تنقید کا مشورہ اچھا نہیں تھا کیونکہ یورپی یونین کبھی بھی امریکہ کی طرح پاکستان کے خلاف جارحانہ نہیں رہا اور ان کا رویہ پاکستان کے لئے ہمیشہ نرم رہا اور انہوں نے پاکستان کو جی ایس پی پلس سٹیٹس سے نوازا۔

 

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔