معیشت آئی ایم ایف کے حوالے، خارجہ امور غیروں کے حوالے اور ملک کٹھ پتلی کے حوالے ہے

معیشت آئی ایم ایف کے حوالے، خارجہ امور غیروں کے حوالے اور ملک کٹھ پتلی کے حوالے ہے
جب سے ہوش سنبھالا ہے ایک ہی بات سن سن کر کان پک گئے تھے کہ ملک نازک دور سے گزر رہا ہے، مگر آج محسوس ہو رہا ہے کہ ملک واقعی نازک دور سے گزر رہا ہے۔ ملک کی معیشت آئی ایم ایف کے پکے ملازمین کے حوالے ہے، خارجہ امور سرحد پار منتقل جبکہ ملک سلیکٹڈ کٹھ پتلی کے رحم و کرم پر ہے۔

اسٹیبلشمنٹ کو لاحق پسند اور ناپسند نامی بیماری ملک کو تختہ مشق بناتی رہی ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے مگر حق بات یہ ہے کہ صدر آصف علی زرداری نے ملک کو خود مختار بنایا تھا۔ خارجہ امور سمیت اہم معاملات عوام کی منتخب پارلیمنٹ کے سپرد کر دیے تھے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے جنرل (ر) پرویز مشرف امریکہ کی ایک دھمکی پر پانی پانی ہو گئے تھے اور اسٹیبلشمنٹ کو ناک سے لکیر کھینچتے ہوئے الٹے پاؤں چلنا پڑا تھا۔

تاریخ بتاتی ہے کہ کوئی آمر جب اقتدار پر قبضہ کرتا ہے تو بدلے میں ملک کی خود مختاری اور آزادی رہن رکھ کر اقتدار کے مزے لوٹتا ہے جس کا خمیازہ ملک اور قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔

آج ہمارے حالات واقعی قابل تشویش ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب بھی پیپلزپارٹی اقتدار میں آتی ہے خزانہ خالی ہے کا رونا رونے کی بجائے ریاست کے ثمرات میں عوام کو حصہ دار بناتی ہے۔ ملک کی آزاد خارجہ پالیسی ہوتی ہے، بیرونی قرضے بھی بلا کسی ناغہ ادا کیے جاتے ہیں۔ صدر آصف زرداری نے گوادر کا ٹھیکہ چین کو دیتے وقت معیشت کی راہداری کا نقشہ بھی دیا تھا تاکہ نہ صرف چاروں صوبوں بلکہ کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام بھی خوشحال ہو سکیں۔ انہوں نے پاک ایران گیس پائپ لائن کی بنیاد بھی رکھی تھی تاکہ انرجی میں ملک خود کفیل ہو سکیں۔ آج پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر کام بند ہے اور معاشی راہداری کو بھی متنازعہ بنانے کی سازش ہو رہی ہے۔

حیران کن بات یہ ہے کہ سرکاری و صنعتی اداروں کے محنت کشوں کے لیے  بے نظیر اسٹاک ایکسچینج میں رکھی 22 ارب رقم چوری کرنے کے بعد بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے بھی غریب خواتین کو ملنے والی رقم ہضم کی جا رہی ہے، جس فلاحی پروگرام پر عالمی ڈونر اعتبار کر رہے تھے اس کو بھی متنازعہ بنایا جا رہا ہے، جبکہ حالت یہ ہے کہ سفید پوش طبقہ بھی معاشی طور بدحال ہو رہا ہے۔

خلق خدا اپنی آنکھوں سے یہ ماجرا بھی دیکھ رہی ہے کہ اسلام آباد کا ایک پہاڑ تبدیلی لانے کے دعوے دار کی ملکیت ہے، جہاں ایک پرکشش محل ہے، جو حقیقی معنوں میں تجاوزات کا نمونہ ہے مگر اس پہاڑ کے نیچے عام آدمی کو دو مرلے پر چھت بنانے کی اجازت نہیں ہے۔

عمران خان نے کہا تھا کہ وہ عوام کو 50 لاکھ گھر فراہم کریں گے، الٹا 50 لاکھ مکان مسمار ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ نوجوانوں کو ایک کروڑ ملازمتیں دیں گے، ایک کروڑ سے زیادہ دیہاڑی دار مزدوروں سے روزگار کا ذریعہ چھین لیا گیا ہے۔ انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کی بجائے خود کشی کریں گے مگر ہوا یہ کہ ملک کی معیشت آئی ایم ایف کے سپرد کر دی گئی۔ انہوں نے ملائشیا نہ جا کر یہ راز بھی فاش کر دیا کہ ہمارے خارجہ امور کس کے پاس ہیں۔

سچ یہ ہے کہ آج ملک واقعی نازک دور سے گزر رہا ہے کیونکہ معیشت آئی ایم ایف کے حوالے، خارجہ امور غیروں کے حوالے اور ملک کٹھ پتلی کے حوالے ہے۔