Get Alerts

عمران خان تیکو رب ہور ڈیوے!

عمران خان تیکو رب ہور ڈیوے!
قارئین جب کورونا وائرس نے چین کے شہر ووہان  سے تباہی مچانا شروع کی تو یقینا اندازہ ہی نہ تھا کہ ایک دن ہم بھی اس کی گرفت میں ہونگے۔ اور یوں کورونا نے جلد ہی پوری دنیاء کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا اور دنیاء سمیت پاکستان میں بھی اس موذی وائرس سے بچنے کیلئے سماجی دوری برقرار رکھنے کیلئے حکومتوں کے پاس لاک ڈاون کے سوا کوئی اور چارہ نہ تھا۔

اب لاک ڈاون تو کردیا گیا جسکے تحت سب کچھ بند جو کہ مجبوری بھی تھی مگر پھر مسئلہ ان غریبوں کیلئے پیدا ہوگیا جو دیہاڑی دار طبقہ تھا یا کم آمدنی والے افراد ہیں جس کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے ان غریبوں کا احساس کیا اور انہیں احساس پروگرام کے ذریعے بارہ ہزار فی خاندان دینے کا اعلان کیا۔ اور پھر اندراج کیلئے ایس ایم ایس سروس متعارف کرائی گئی اور یہ 19 اپریل کو بند ہوگئی۔  لیکن اس میں جو طریقہ کار وضع کیا گیا وہ آسان تھا جس کےذریعے گھر بیٹھے 8171 پر اپنا شناختی کارڈ نمبر ایس ایم ایس کر کے اندراج کروا سکتے تھے۔ اور ایسے کئی بیروزگار، دیہاڑی دار طبقہ مستفید بھی ہوا۔
حکومتی عداد شمار کے مطابق اب تک کل 9،220،763 مستحقین سامنے آئے جنہیں کل 112،160،83ملین رقم ادا کی گئی۔ جس میں پہلا نمبر پنجاب دوسرے پر سندھ، تیسرے پر خیبر پختونخواہ، چوتھے پر بلوچستان اسی طرح پانچویں پر آزاد جمہوں و کشمیر ساتویں پر گلگت بلتستان جبکہ نمبر آٹھ پر اسلام آباد ہے۔ احساس پروگرام کے ایک سینٹر پر موجود محمد طلحہ کے مطابق ہفتہ وار کی بنیاد ہر سوموار کو ضلعی  سطح پر  مکمل چھان بین کے بعد حکومت کی جانب سے نئے اندراج ہونے والے 25000 ہزار مستحقین کی لسٹ ہمیں فراہم کی جاتی ہے جنہیں اہل قرار دیا جاتا ہے انہوں نے مزید بتایا کے ایک شخص کو اندراج سے اہلیت کی جان پڑتال تک تقریبا تین ہفتوں تک کا وقت درکار ہوتا ہے اور شاید کبھی اس سے بھی زیادہ جسکے بعد متعلقہ صارف کو میسج کے ذریعے آگاہ کردیا جاتا کہ آیا وہ اس پروگرام کے لیئے اہل ہیں یا نہیں؟جب احساس پروگرام کے ایس ایم ایس سروس کے ذریعے  اندراج کے حوالے سے مجھے معلوم ہوا تو میں نے اپنے چھوٹے بھائی کو فورا گاوں روانہ کر دیا تھا اور  انہیں کہا کہ رضاکارانہ طور وہ وہاں جاکر تمام تر آس پاس کی بستیوں میں ایسے مستحقین کے شناختی کارڈ نمبر احساس پروگرام کے لیئے بھیج کر رجسٹریشن کرائے جو بچارے لاک ڈاون سے متاثر ہوئے ہیں۔ اور یہ اس لیئے کیا گیا کیونکہ گاؤں کے لوگوں کی اکثریت غیر تعلیم یافتہ ہے۔ جب کہ اس دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ گاوں کی خواتین تو بہت دور مردوں کی اکثریت کے پاس بھی سادہ بٹنوں والا موبائل تک نہیں تھے۔

میرے بھائی نے گھر گھر جاکر نہ صرف اس وائرس سے متعلق آگاہ کیا بلکہ تمام مرد و خواتین جو انتہائی غریب تھے کی احساس پروگرام میں اپنے موبائل سے میسج کرکے ان کا  اندراج ممکن بنایا۔  انہیں میں سے ایک ایسی غریب خاتون کی کہانی گوشگزار کررہا ہوں۔ ملاخط فرمائے۔

مجھے کورونا وائرس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا لیکن کچھ دنوں سے دودھ والا نہیں آرہا تھا (دودھ خریدنے والا) میں روز صبح سویر گائے کا دودھ نکال کر اپنی بچی کو گلی کے نکر پر بیٹھا دیتی تھی تاکہ جیسے دودھ والا آئے مجھے فورا خبر مل جائے اور میں انہیں یہ بیچ کر سودہ سلف کیلئے ان سے پیسے حاصل کرسکوں۔ لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ کوئی کاروڑاں (کورونا) (انہوں نے یہ سرائیکی میں کہا) بیماری آئی ہوئی جسکی وجہ سے سب کچھ بند کردیا گیا۔ یہ سن میرے منہ سے ہائے نکلا کیوں کہ میرے گھر میں تو اشیاء خوردونوش خریدنے کے بھی پیسے نہیں تھے اور اس سے پچھلے ہفتے دیئے گئے دودھ کا بقایا بھی لینا تھا۔ یہ بتانا تھا خیبر پختون خواہ کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی یونین میرن سے تعلق رکھنے والی ایک بیوہ خاتون تاجو مائی کا جن کے شوہر دو ہزار پندرہ میں غربت کے بوجھ تلے دب کر  دل کا دورہ پڑنے سے انہیں بیوہ اور چار بیٹیوں کو یتیم کرگئے۔

تاجومائی ایک مرلہ کے مٹی سے بنے کچے مکان کی رہائشی ہیں انہوں نے بتایا کہ بس میں کافی پریشان تھی لیکن پھر یہ حیلہ تھا کہ چلو کوئی نہ کوئی کچھ دے جائے گا کیونکہ کچھ لوگ میری وقتا فوقتا  مالی مدد کرتے رہتے تھے لیکن یہ بھی میرا وہم نکلا کیونکہ انتظار کے باوجود کوئی نہیں آرہا تھا کیونکہ مجھے اندازہ ہی نہیں تھا کہ معاشی حالات سب کے مثاتر ہوئے ہیں۔

میں نے آج تک کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائے تھے البتہ اگر کوئی کچھ گھر آکر دے جاتا تو خاموشی سے لے لیتی تھی پر دوسری طرف گھر کا راشن بھی ختم ہونے کے قریب تھا اور دوکاندار کو پچھلے کچھ سودوں کا بقایا حساب بھی دینا تھا۔ اب میں سوچ رہی تھی کہ جاکر کسی سے مانگتی ہوں مگر پھر ضمیر اجازت نہ دیتا کہ کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلانے۔

 تاجو نے یہ بھی بتایا کہ میں سب سے پہلے اپنی بچیوں کو کھانا کھلاتی ہوں تو  ایک رات ایسی بھی گزری  کہ سالن کم پڑگیا یعنی میرا نہیں بچا تھا تو جب میں نے اپنی بیٹیوں کو سلادیا سوچا چلو دودھ سے روٹی کھالونگی مگر دیکھنے پر دودھ کی دیگچی خالی ملی دراصل چھوٹی بیٹی تبسم  نے پی لیا تھا اب گائے کے پاس گئی مگر چونکہ اس سے شام کو ہی دودھ نکالا تھا تو اس سے کچھ حاصل نہ ہوا۔

بالآخر پانی میں نمک اور مرچیں ملاکر اسے آگ پر تھوڑا پکا لیا  اور روٹی ڈبو ڈبو کر کھائی کیونکہ بھوکا پیٹ بھرنے کا واحد یہی ذریعہ تھا۔

تاجو مائی کے مطابق میں گھر میں اکیلی ہوں کوئی مرد کمانے والا نہیں پہلے تو ایسا ہوتا تھا کہ میں گندم کی کٹائی (لاو) بھی کرتی تھی اور پھر جتنا حصہ بنتا تھا اسے گھر لے آتی اور ہاتھ سے ڈنڈے کے ذریعے کوٹ کر کچھ گندم بیچ دیتی اور کچھ کا اپنی پتھر کی چکی پر آٹا پیس لیتی تھی لیکن اب گندم کی کٹائی ہاتھ سے کوئی نہیں کرواتا کٹر مشینیں جو آگئی ہیں اس لیئے اب  میرے گھر کا اکثریت خرچ دودھ بیچ کر پورا ہوتا ہے اور ایک ہفتے کا تقریبا بارہ سے پندرہ سو بن جاتا تھا لیکن اب ہوٹل بند اور ٹرانسپورٹ کی سہولت دستیاب نہ ہونے وجہ سے کھیریوں (دودھ فروشوں) نے دودھ لینا بند کردیا کیونکہ وہ یہ دودھ آگے نہیں بھیج پارہے۔ اور یوں میری جو آمدن تھی وہ رک گئی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ جس رات میں نے پانی سے روٹی کھائی تھی اگلے روز آپ کے چھوٹے بھائی نے بتایا عمران خان کی حکومت لاک ڈاون سے متاثرہ غریبوں کو بارہ ہزار روپیہ دے رہی ہے انہوں نے میرا کارڈ نمبر بھیجا اور یقین دہانی دلائی آپ کو پیسے ملینگے یہ سنتے ہی میں نے فورا دوکاندار سے راشن ادھار لیا اور  پھر کچھ دن بعد میں دوسری خواتین کے ساتھ احساس پروگرام  سنٹر چلی گئی جہاں میرے انگوٹھا لگا کر  بارہ ہزار روہے  مل گئے۔ 


گھر آکر فورا دوکاندار کا ادھار چکایا اور مزید ضروری اشیاء بھی لیں جبکہ ان پیسوں سے ہماری ہماری عید بھی اچھی گزر گئی یہ کہتے ہوئے انہوں نے آسمان کی طرف دیکھا اور جھولی اٹھا کر سرائیکی لہجے میں کہا عمران خان اساں غریباں دا احساس کرنڑ تے بہوں بہوں مہربانی تے نیلی چھت آلا تیکوں اتہوں وادھے رزق ڈیوے۔ اردو ترجمہ عمران خان ہم غریبوں کا احساس کرنے پر بہت بہت شکریہ اور اللہ آپ کو مزید رزق دے۔ کہانی اختتام کو پہنچی دعا گو ہو کہ اللہ تعالی ہمیں غریبوں کا احساس اور بےسہاروں کی مدد و کفالت کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین

مصنف برطانوی ادارے دی انڈیپنڈنٹ (اردو) کیساتھ بطور صحافی منسلک ہیں۔ اور مختلف قومی و بین الاقوامی اداروں میں لکھتے رہتے ہیں۔