اروندھتی رائے بنام شاہد العالَم: ’یہ پست ذہنیت ایک دن نیست و نابود ہو جائے گی‘

اروندھتی رائے بنام شاہد العالَم: ’یہ پست ذہنیت ایک دن نیست و نابود ہو جائے گی‘
15 نومبر 2018 پین کے بین الاقوامی دن کے موقع پر اروندھتی رائے کی جانب سے شاہد الاسلام کو تحریر کیا جانے والا خط قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔

آج کے روز ڈھاکہ ہائی کورٹ نے شاہدالعالم کو ضمانت دے دی ہے جو گذشتہ سو دنوں سے جیل میں قید تھے۔ لیکن تاحال انہیں رہا نہیں کیا گیا ہے اور حکومت عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے جا رہی ہے۔ ہر سال 15 نومبر کو پین (PEN) پانچ ایسے لکھاریوں اور ایکٹوسٹوں کے کیسوں کو اجاگر کرتی ہے جنہیں قید کیا جاتا ہے، مار دیا جاتا ہے، ظلم و جبر کا نشانہ بنایا جاتا ہے یا پھر انہیں اپنا کام انجام دینے میں خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ اس سال کی کمپین ایریٹریا میں قید داوت اساک، میکسیکو میں مارے جانے والی مارسولوا برہچ ویلڈوسا، روس میں قید اولیگ سینسٹوو، بنگلہ دیش میں زیرِ حراست شاہدالعالم اور مصر میں قید وایل عباس کے کیسز کو اجاگر کرنے پر مرکوز رہی۔ ڈیوڈ لیگرکرانٹس ،جینیفر سیلیمنٹ، ٹام سٹوپرڈ اور خالد حسینی جیسے لکھاری بھی اس سال کی مہم میں شرکت کر رہے ہیں۔

بنام شاہدالعالم چمپا کلی 2/5 ڈھاکہ سینٹرل جیل کیرانیگانی، ڈھاکہ، بنگلہ دیش۔ 

مورخہ نومبر 15 سال 2018 پین کے قید لکھاریوں کے بین الاقوامی دن کے موقع پر

پیارے شاہد تمہیں گئے ہوئے سو دن بیت چکے ہیں۔ تمہارے اور میرے وطنوں میں حالات اچھے نہیں ہیں اس لئے جب ہم تک یہ خبر پہنچی کہ چند نامعلوم افراد تمہیں اغوا کر کے لے گئے ہیں تو ہمیں یہ خوف پیدا ہو گیا کہ تمہیں جعلی پولیس مقابلے میں مار دیا جائے گا یا غیر ریاستی عناصر کے ہاتھوں تمہاری موت واقع ہو جائے گی۔ ہمیں یہ خیال بھی آیا کہ اب شاید تمہاری لاش شہر سے کہیں دور کسی سڑک کے کنارے یا تالاب میں ملے گی۔ جب تمہاری گرفتاری کا اعلان کیا گیا اور تمہیں صیح سلامت پولیس سٹیشن میں پیش کیا گیا تو ہماری جان میں جان آئی۔ کیا میں حقیقتاً محض تمہیں مخاطب کرتے ہوئے یہ خط تحریر کر رہی ہوں؟ شاید نہیں۔ اگر میں ایسا کر رہی ہوتی تو میں اس سے زیادہ نہ لکھتی کہ پیارے شاہدال تم اپنے قید خانے میں کتنے ہی تنہا کیوں نہ ہو لیکن یہ کبھی مت بھولنا کہ ہماری نگاہیں تم پر جمی ہوئی ہیں، ہم تمہیں دیکھ رہے ہیں۔ اگر میں واقعی میں تمہارے لئے یہ تحریر لکھ رہی ہوتی تو مجھے یہ بتانے کی ضرورت قطعاً پیش نہ آتی کہ تمہاری لی گئی تصاویر، تمہارے الفاظ نے دہائیوں سے ہمارے خطے میں انسانی اقداروں اور حقوق کے تحفظ کے میدان میں گہرے نقش ثبت کیے ہیں۔ تمہارا کام شاندار اور بھرپور ہے۔ جو محبت، تحقیق اور ان حالات و واقعات سے متعلق غصیلے سوالات کا شاندار نمونہ ہے جو تم نے خود اپنی نگاہوں سے دیکھے۔ جنہوں نے تمہیں قید کیا ہے وہ تمہارے کام کی اہمیت سے واقف ہی نہیں ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ شاید ایک دن وہ اسے سمجھ پانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔



تمہیں گرفتار کرنے کا مقصد دراصل تمہارے ساتھی شہریوں کو تنبیہہ ہے کہ اگر ہم شاہد العالم کے ساتھ ایسا کر سکتے ہیں تو سوچو باقی سب کے ساتھ ہم کیا کر سکتے ہیں۔ تم سب بے نام بے شناخت اور عام افراد دیکھو اور ڈرو۔ تمہارے خلاف بنیادی الزام یہ ہے کہ تم نے اپنی فیس بک پوسٹس کے ذریعے اپنے ملک پر تنقید کی ہے۔ تمہاری گرفتاری بنگلہ دیش کے بدنامِ زمانہ انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ایکٹ  ( ICT)کے تحت کی گئی ہے۔ اس قانون کے تحت کسی بھی ایسے شخص کو گرفتار کیا جا سکتا ہے جو ڈیجیٹل یا الیکٹرانک میڈیا پر ایسا مواد شئیر کرے جو جھوٹ منافرت، بدنیتی یا پڑھنے اور دیکھنے والوں کو گمراہ کرتا ہو اور جس کے باعث نقص امن کا خدشہ ہو یا جو ریاست کے امیج اور مذہبی عقائد سے متصادم ہو۔ یہ کس قسم کا مضحکہ خیز اور امتیازی قانون ہے جو محض تمام اختلاف رائے رکھنے واکوں کو سزا دینے کیلئے بنایا گیا ہے؟ ایک ایسا ملک جو جمہوری کہلاتا ہو وہاں ایسا قانون بن بھی کیسے سکتا ہے؟ کس کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ تعین کرے کہ ریاست کا درست امیج کیا ہے؟ کیا بنگلہ دیش کا ایک قانونی اور متفقہ امیج موجود ہے؟ سیکشن 57 قصیدہ گوئی کے علاوہ ہر قسم کی تقریر یا بات کرنے پر پابندی عائد کرتا ہے۔ یہ دانشوروں پر حملہ نہیں بلکہ بذاتِ خود علم و دانش پر حملے کے مترادف ہے۔ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ اس قانون کے تحت بنگلہ دیش میں گذشتہ پانچ برسوں میں 1200 صحافیوں کو گرفتار کیا گیا ہے اور اس ضمن میں عدالتوں میں 400 کے قریب مقدمات کی سماعت ہو رہی ہے۔

بھارت میں بھی ہماری دانشوارانہ اساس پر اسی قسم کے حملے اب قابلِ قبول بن چکے ییں۔ بنگلہ دیش کے (ICT) قانون کے ہم پلہ ہمارا بھارتی قانون ان لا فل ایکٹیویٹیز پریوینشن ایکٹ ہے جس کے تحت سینکڑوں طالبعلم، ایکٹوسٹ، وکلا اور اساتذہ کو ہر مختصر مدت کے بعد پابند سلاسل کیا جاتا ہے۔ ان افراد کے خلاف کیسز تمہارے کیس کی طرح بے بنیاد اور کھوکھلے ہیں۔ حتیٰ کہ پولیس بھی جانتی ہے کہ ان افراد کو اعلیٰ عدالتوں سے رہائی مل جائے گی۔ لیکن تب تک متعدد سال جیل میں گزارنے کے باعث ان افراد کے حوصلے پست اور روحیں گھائل ہو چکی ہوں گی۔ یہ عمل بذات خود ایک سزا کے مترادف ہے۔ تو پیارے شاہدال یہ خط تحریر کرتے ہوئے میں مجبور ہوں کہ اس میں سدھا، سایبابا، سریندرہ، شوما، مہیش، سدھیر، رونا، ارون، ورنون، طارق، اعجاز عامر کوپا، کاملا، مہادوی، ماسے، راجو اور سینکڑوں دیگر افراد کا بھی تذکرہ کروں۔ لوگوں کیلئے اس قسم کے قوانین کے خلاف اپنا دفاع کرنا کیسے ممکن ہے؟ یہ ایسا ہے کہ جیسے انہیں اپنی بے گناہی سندیافتہ پیرانویا کے مرض کا شکار پینل کے سامنے ثابت کرنے کو کہا جائے۔ کسی بھی قسم کے دلائل ان کے پیرانویا اور خود فریبی کے خبط میں محض اضافہ ہی کر سکتے ہیں۔



اب جبکہ ہمارے یہ دونوں ممالک انتخاب کے عمل کی جانب بڑھ رہے ہیں تو ہمیں معلوم ہے کہ ہمیں مزید گرفتاریوں کی توقع کرنی چاہیے۔ مزید بلاگرز کو اٹھا کر مار دیا جائے گا اور زیادہ اموات ہوں گی۔ مذہبی اور لسانی بنیادوں پر فسادات برپا کروائے جائیں گے۔ مزید دہشت گردوں کے جھوٹے حملوں کا اعلان کیا جائے گا۔ صحافیوں اور لکھاریوں کی مزید اموات واقع ہوں گی۔ انتخابات ہم جانتے ہیں کہ آگ لگانے کا کام انجام دیتے ہیں۔ تمہاری وزیراعظم جو خود کو سیکیولر کہلواتی ہے اس نے سعودی حکومت کی جانب سے دی گئی اربوں ڈالرز کی امداد کے ایک حصے سے پانچ سو سے زائد مساجد کی تعمیر کا اعلان کیا ہے۔ ان مساجد کی تعمیر کا مقصد "درست اسلام" کا پرچار کرنا ہے۔ یہاں بھارت میں بھی ہمارے حکمرانوں نے سیکولرزم اور سوشلزم کے وہ بنیادی اصول تیاگ دیے ہیں جو ہمارے آئین میں درج ہیں۔ اچھی حکمرانی کا نظام قائم کرنے میں ناکامی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے اداروں کو جن میں سپریم کورٹ، جامعات بنک، اور تحقیقاتی ایجنسیاں شامل ہیں بحران در بحران کا شکار بنایا جا رہا ہے۔ حکومتی طاقت (حکومت نہیں بلکہ اس کو یرغمال بنانے والی راشٹریا سوائم سیوک سنگ) کی جانب سے سپریم کورٹ کو ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ جاری ہے تاکہ سپریم کورٹ اس جگہ پر ہندو مندر کی تعمیر کے سلسلے میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کا حکم دے جہاں کسی زمانے میں بابری مسجد ہوا کرتی تھی اور جسے مشتعل ہجوم نے مسمار کر ڈالا تھا۔ یہ حیران کن ہے کہ کیسے انتخابات کے تناظر میں سیاستدانوں کی ترجیحات فوری طور پر تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔



ہم اسی چیز کے ہی خلاف ہیں۔ ایک پارسا قوم، پارسا آدمی، پارسا ہندو، پارسا مسلمان کا یہ تصور ہی دراصل مسائل کی جڑ ہے۔ اس کے نتیجے میں پارسا اکثریت اور گنہگار اقلیت کا تصور وجود میں آتا ہے۔ یورپ اور روس میں بسنے والے افراد ان نظریات کی وجہ سے پیدا ہونے والے مضمرات کو سہہ چکے ہیں۔ انہوں نے پارسائی نافذ کرنے کی کاوشوں کے نتیجے میں شدید قسم کی دہشت کا سامنا کیا ہے۔ حال ہی میں یورپ نے (Kristalinacht) کی سالگرہ منائی ہے جو ہولوکاسٹ کے شروع ہونے باعث بنا تھا۔ وہاں بھی یہ دھیرے دھیرے شروع ہوا تھا۔ وہاں بھی اس عمل کا آغاز انتخابات کے ساتھ ہوا تھا۔ اور وہاں بھی یہ فرسودہ نظریات پھر سے وجود میں آنا شروع ہو چکے ہیں۔ ہم آنے والے دنوں میں اپنے ممالک میں انتخابات کو دیکھیں گے۔ اس دوران مقتدر طبقات ان قوانین کا استعمال کریں گے اور سایوں کو بھی مقید کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ اختلاف رائے کو دبایا جا سکے۔ خوش قسمتی سے ہم وہ لوگ ہیں جنہیں ان ہتھکنڈوں سےڈرا کر سوچ تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ اور امید ہے کہ ہم اپنے طریقوں اور گہری سوچ اور نظریات کی مدد سے ان کے خلاف کھڑے ہوں گے۔

پیارے شاہدال میرا یقین ہے کہ حالات بدلیں گے۔ یہ بیوقوفانہ اور کم نظر حکمت عملی کسی مثبت اور اچھے مستقبل کی سوچ اور حکمت عملی کو جنم دینے کا باعث بنے گی۔ یہ پست ذہنیت جس نے ہماری زمین کو جکڑ رکھا ہے ایک دن نیست و نابود ہو جائے گی۔ مجھے امید ہے کہ میں جلد ہی تم سے ڈھاکہ میں ملاقات کروں گی۔

اروندھتی رائے۔